تھر پارکر میں تعلیمی بحران پر تشویش، تھر الائنس کا اجلاس، مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق

مٹھی (رپورٹ : میندھرو کاجھروی/ جانو ڈاٹ پی کے) اسکولوں سے باہر بچوں کی واپسی بابت اجلاس، تھرپارکر میں تعلیمی بحران کے حل کیلئے مشترکہ حکمت عملی پر زور۔
تھر ایجوکیشن الائنس کی جانب سے اسکولوں سے باہر بچوں کو واپس لانے کے عنوان سے اہم اجلاس الائنس آفس مٹھی میں منعقد ہوا، جس میں محکمہ تعلیم، سول سوسائٹی اور مختلف تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
پرتاب شیوانی چیف ایگزیکٹو تھر ایجوکیشن الائنس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تھرپارکر کے تعلیمی مسائل سندھ کے دیگر اضلاع سے مختلف ہیں۔ کمیونٹی کے سماجی و معاشی مسائل تعلیم تک رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف ڈجیٹیل ایجوکیشن کو فروغ دینے سے بات پوری نہیں ہوتی، اس کے ساتھ انفراسٹرکچر، اساتذہ کی دستیابی، لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار کے مواقع جیسے بنیادی مسائل بھی حل کرنا ضروری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے خاندان روزگار نہ ملنے کو جواز بنا کر بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے، جس سے ڈراپ آؤٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔نریش کمار مہیشوری، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (سیف) نے بتایا کہ سیف اسکولوں میں سہولیات اور مانیٹرنگ بہتر ہونے کی وجہ سے کمیونٹی تعاون کرتی ہے۔ تاہم نقل مکانی، معاشی مسائل اور ہر تحصیل کے الگ زمینی حقائق تعلیم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیف اسکولوں میں حاضری 63 فیصد ہے۔اشوک کمار این سی ایچ ڈی مئنيجر نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن اور انفراسٹرکچر دونوں محکموں کے ساتھ کمیونٹی کی ذمہ داری بھی ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مرکزیت کا نظام ختم کرکے اختیارات اسکول سطح پر دیئے جائیں تاکہ فیصلے فوری ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو واپس اسکول لانے کے لیے باقاعدہ اجلاس بھی نہیں ہوتے جبکہ لڑکیوں کی ڈراپ آؤٹ شرح سب سے زیادہ ہے۔
رحمت اللہ بھٹو کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے ایمرجنسی کے باوجود صرف بایومیٹرک نظام متعارف کرایا، اس کے علاوہ کوئی عملی بہتری سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ فنڈز ملیں تو اسکولوں میں بچے نظر آتے ہیں ورنہ اکثر اسکول خالی پڑے رہتے ہیں۔ساقی راجپوت نے کہا کہ اسکولوں کا ماحول بہتر نہیں، اساتذہ کی تربیت ناکافی ہے اور بچوں کی توجہ کورس پر نہیں جاتی۔ انہوں نے بتایا کہ صرف ایک اسکول میں 2500 داخل طلبہ میں سے صرف 570 بچے واقعی اسکول آ رہے ہیں، جب کہ کوچنگ سینٹر بھی بچوں کو اسکول سے دور کر رہے ہیں۔
ٹی ای او فیمیل رابعہ اکبر نے کمیونٹی شمولیت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تعلیم کا ماحول بہتر ہے وہاں بچے خود آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض گرلز اسکولوں میں میل ٹیچرز تعینات ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں، جو ایک سماجی مسئلہ بھی ہے۔نند لال شرما نے کہا کہ کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے والے خاندان بچوں کو فصلوں کے موسم میں اسکول نہیں بھیجتے، جبکہ کمیونٹی کا کردار اسکولوں کی بہتری میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اجلاس میں دیگر شرکاء، جن میں مہیش کمار، رسول بخش سموں، راجا شرما، سارنگ رام، فہیم حیات نھڑیو و دیگر شامل تھے، نے بھی تعلیمی بحران کے حل کے لیے تجاویز پیش کیں۔


