فادر آف طالبان سے کلر آف طالبان تک کا سفر

لاہور(سپیشل رپورٹ:حافظ نعمان)افغانستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں عالمی طاقتیں بارہا داخل ہوئیں مگر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ برطانیہ، سوویت یونین اور بالآخر امریکا، تینوں بڑی طاقتیں افغانستان کی "گریو یارڈ آف ایمپائرز” یعنی "سلطنتوں کا قبرستان” کی حیثیت کو بدلنے میں ناکام رہیں،2001ء میں امریکانے دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا اورپاکستان کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کا اہم اتحادی بنایا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہی اتحادی، یعنی پاکستان، امریکی حکمتِ عملی کے اندر رہ کر وہ کام کرتا رہا جس سے بالآخر امریکہ کو شکست ہوئی۔

امریکا کی افغانستان آمد اور پاکستان کا کردار

نائن الیون کے بعد امریکانے طالبان حکومت اور القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کیا۔ پاکستان، جغرافیائی لحاظ سے، اس مشن کیلیئے سب سے اہم ملک تھا۔ امریکاکو زمینی اور فضائی رسائی، انٹیلیجنس شیئرنگ اور لاجسٹک سپورٹ کیلئے پاکستان پر انحصار کرنا پڑا۔ پاکستان نے بظاہر امریکاکا ساتھ دیالیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔

پاکستان نے امریکاکو رسد، معلومات اور فوجی تعاون دیا مگر ساتھ ہی ساتھ گُڈ طالبان سے رابطے بھی برقرار رکھے۔ امریکا کی جانب سے کئی بار پاکستان پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ پاکستان نے گُڈ طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں،سو اس لئے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ اور امریکی صدر باراک اوباما کئی بار شمالی وزیر ستان میں آپریشن کا مطالبہ کرتے رہے ۔الزام یہ بھی ہے کہ پاکستان نے امریکاکی مدد سے طالبان کو دوبارہ مستحکم کیا وہ طالبان جنہیں خود امریکہ ختم کرنا چاہتا تھا۔

پاکستان کی مجبوری یا حکمت عملی؟

بعض ناقدین پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے دوہرا کھیل کھیلا ہے۔ ایک طرف امریکاکا ساتھ دیا، دوسری طرف طالبان کی مدد کی۔ لیکن اگر اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو یہ صرف موقع پرستی نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے۔

پاکستان کیلئے افغان طالبان صرف ایک نظریاتی یا مذہبی وابستگی کا مسئلہ نہیں تھے  بلکہ اس کے سٹریٹیجک مفادات بھی ان سے وابستہ تھے۔ بھارت کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کیلئے ایک مستقل خطرہ سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ پاکستان نے اپنی "سٹریٹیجک ڈیپتھ” کی پالیسی کے تحت افغانستان میں ایسے عناصر کی حمایت کی جو پاکستان کے مفادات کے قریب تھے — یعنی گُڈ طالبان۔

امریکی سرمایہ،پاکستانی مفاد

پاکستان نے اربوں ڈالر کی امریکی امداد سے عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا،امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجی کارروائیوں پر 2ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کیے۔ پاکستان کو بھی اربوں ڈالرز کی امداد ملی۔ فوجی بھی اور سول بھی۔ مگر ان رقوم سے پاکستان نے اپنی عسکری صلاحیت میں اضافہ کیا، طالبان کو پس پردہ امداد دی، اور امریکہ کے ساتھ رسمی تعاون قائم رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھایا۔

 امریکی انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی اور مالی امداد کے سائے میں طالبان نے خود کو منظم کیا اور بالآخر2021ءمیں افغانستان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔امریکاکو اپنی تاریخ کا طویل ترین اور شرمناک انخلا کرنا پڑا۔

افغان طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر متقی نے بھارت کی گود میں بیٹھ کر بیان داغا ہے کہ امریکا،برطانیہ اورسوویت یونین  سے سبق سیکھیں تو یہ جملہ ان کے پیش خدمت ہے۔Soviet -Afghan War Samurai 1980 on X: "The Pakistani military produced a cartoon illustrating the Afghan Taliban providing financial support from Indian intelligence agency RAW to the Pakistani Taliban, enabling them to

جناب ملا متقی صاحب متوجہ ہوں !طالبان نے نہیں بلکہ پاکستان نےسوویت یونین،امریکااورنیٹو  کاقبرستان افغانستان  میں بنایا

 کون فاتح کو ن شکستہ خوردہ_ پاکستان طالبان یا امریکا؟

افغانستان سے امریکاکے انخلا کے بعد عالمی سطح پر یہ سوال اٹھا: آخر امریکہ کیسے ایک گمنام سے گروہ طالبان  کے ہاتھوں شکست کھا گیا؟

لیکن اس سوال کا جواب پاکستان کے کردار میں چھپا ہوا ہے۔

پاکستان نے بظاہر ایک اتحادی کے طور پر امریکہ کا ساتھ دیا، مگر حقیقتاً امریکہ کے ہی وسائل سے طالبان کو مضبوط کر کے امریکہ کی حکمتِ عملی کو ناکام بنایا۔ یہ ایک انوکھا مظہر ہے: ایک چھوٹا ملک، ایک بڑی سپر پاور کو شکست دینے کیلئے اسی کی طاقت، پیسہ، اور حکمتِ عملی کو استعمال کرتا ہے۔

تاریخ میں ایسے کم ہی واقعات ملتے ہیں جب ایک ملک، کسی عالمی طاقت کو نہ صرف میدانِ جنگ میں شکست دیتا ہے بلکہ اسے دنیا کے سامنے بے نقاب بھی کر دیتا ہے۔ پاکستان کا کردار افغان جنگ میں ایسا ہی ایک پیچیدہ، متنازعہ اور زبردست حکمتِ عملی پر مبنی کردار رہا ہے۔

اس پوری جنگ کا سب سے بڑا سبق شاید یہی ہےکہ طاقت صرف ہتھیاروں میں نہیں، عقل، حکمتِ عملی اور دو رخے کھیل میں بھی ہوتی ہے۔

2012کے بعد پاکستان اور افغان طالبان میں دوری کیسے آگئی؟

پاکستان نے امید کی تھی کہ طالبان کی حکومت آنے کے بعدکالعدم تحریک طالبان پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے گا،سرحدی تحفظ یقینی بنایا جائے گااور بھارت کے اثر و رسوخ کو کم کیا جائے گا۔لیکن یہ سب پاکستان کی امیدوں کے برعکس ہوا۔طالبان نے اپنی روش نہ بدلی۔

  • ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے حملوں کی آزادی دیدی گئی
  • افغان طالبان نے پاکستان کی تنقید کو سخت لہجے میں مسترد کردیا
  • طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا
  • افغان طالبان نے پاکستانی سرحدی فورسز پر حملے شروع کردیئے
  • پاکستانی شہریوں، فوجی اہلکاروں اور تنصیبات پر حملے بڑھا دیئے

پاکستان کا جوابی ردعمل ،سٹریٹیجک شکست کیسے دی؟

عسکری کارروائیاں

پاکستان نے کئی مرتبہ افغان عبوری حکومت کو سمجھایا کہ یہ سب ڈرامے بازی بند کرو،ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرو لیکن  افغان عبوری حکومت نے معاملات کو سنجیدہ نہیں لیا،پھر کیا ہونا تھا وہی ہونا تھا جو پاکستان اپنے دشمن کے ساتھ کرتا ہے۔پاکستان نے کئی مرتبہ افغان سرزمین پر ڈرون اور فضائی حملے کیے، خاص طور پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، یہ حملے طالبان حکومت کی مرضی کے بغیر ہوئے اور ان پر سخت ردعمل بھی آیا، مگر پاکستان نے عسکری طاقت کا پیغام واضح کر دیا۔

سفارتی دباؤ

  • پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرکے بڑا پیغام دیا۔
  • پاکستان نے او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر طالبان کیخلاف بیانیہ بنایا۔
  • پاکستان نے دنیا بھر میں طالبان کے بائیکاٹ کی حمایت کی۔

اقتصادی دباؤ

  • پاکستان نے افغانستان کے ساتھ کئی اہم تجارتی راستے بند کردیئے۔
  • طورخم بارڈر بند ،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیاں لگادی گئیں۔
  • افغان ڈرائیورز اور تاجروں کے ویزا و پاسپورٹ کو ریگولرائز کیا۔

 افغان مہاجرین کی واپسی

2023–24 میں پاکستان نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کا آغاز  کردیا۔لاکھوں افغان شہری پاکستان سے واپس بھیج دیئے گئے ۔ کئی طالبان حامی اور مشتبہ عناصر بھی واپس بھیجے گئے افغانیوں میں شامل تھے۔ یہ طالبان پر براہ راست عوامی اور انتظامی دباؤ تھا۔

امریکا سمیت نیٹو کے تمام ممالک آخر کیسے طالبان سے ہار گئے؟

طالبان کی عالمی حیثیت مزید کمزور ہوئی کیونکہ پاکستان  جو ان کا قریبی حمایتی تھا،اب مخالف کی صف میں آ گیا۔افغان معیشت پر پاکستان کی پابندیوں کا گہرا اثر پڑا ،تجارت کم ہوگئی، مہاجرین کی واپسی سے دباؤ بڑ بڑھا اور طالبان حکومت کی ساکھ کو دھچکا پہنچا۔ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے عمل نے طالبان کو بے نقاب کردیا،یہ بھی ثابت ہوگیا طالبان دہشتگردی کیخلاف کوئی مؤثر پالیسی نہیں رکھتے، بلکہ دہشتگردوں کو تحفظ دے رہے ہیں۔طالبان کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہوا،پاکستان کی مخالفت نے ان کی عالمی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا۔Cartoon: 10 March, 2025 - Newspaper - DAWN.COM

 طالبان کا ردعمل

طالبان حکومت نے بارہا پاکستان کو خبردار کیا،پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات لگائےگئے۔سرحدی جھڑپوں میں شدت آگئی،بعض طالبان رہنماؤں نے پاکستان کو "سامراجی طاقت” اور "غیراسلامی ریاست” قرار دینے تک کی جسارت کی، تمام دعوؤں کے باوجود طالبان حکومت پاکستان کو کوئی بڑا نقصان پہنچانے میں ناکام رہی اور ان کا بیانیہ دنیا میں قبولیت حاصل نہ کر سکا۔

باپ تو آخر با پ ہی ہوتا ہے

طالبان جو کبھی پاکستان کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے، آج پاکستان کے سٹریٹیجک اور عسکری دباؤ میں آ چکے ہیں۔ ان کی خودمختاری، علاقائی اثر، اور بین الاقوامی حیثیت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان نے طاقت، سفارت اور معیشت کے امتزاج سے طالبان کو واضح پیغام دیا ہےاگر تم دہشت گردوں کو پناہ دو گے، تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔Image

مزید خبریں

Back to top button