پاکستان میں بھی سپر فلو کہلائے جانے والے انفلوئنزا کی موجودگی کا انکشاف

نئی قسم زیادہ خطرناک نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ معمول سے پہلے شروع ہو گیا ہے، ڈبلیو ایچ او

اسلام آباد(جانوڈاٹ پی کے) دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے سپر فلو وائرس کی پاکستان میں بھی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق فلو کی نئی قسم A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کے باعث برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں انفلوئنزا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

برطانوی محکمہ صحت کے مطابق اسپتالوں میں روزانہ اوسطاً 2600 سے زائد مریض داخل ہو رہے ہیں، جو پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔

برطانوی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کوویڈ کے بعد اسپتالوں پر سب سے بڑا دباؤ ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ خطرناک نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ معمول سے پہلے شروع ہو گیا ہے۔

سپر فلو سے بچوں اور بزرگوں میں متاثرین کی شرح سب سے زیادہ ہے جبکہ کچھ اسکول عارضی طور پر بند جب کہ کچھ میں اوقات کم کیاگیا ہے۔

پاکستان میں بھی سپر فلو انفلوائنز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے اور اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 20 فیصد نمونوں میں وائرس کی نئی قسم A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کی موجودگی پائی گئی۔

اس حوالے سے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے طبی ماہر ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے بتایا کہ سپر فلو وائرس کی علامات بھی دیگر انفلوئنزا کی طرح ہی ہوتی ہیں یعنی سر میں درد، نزلہ، بخار جیسی علامات ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر رانا جواد نے بتایا کہ اس وائرس کو سپر فلو اس کے لیے کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں جو متوقع تعداد ہوتی ہے اس سے زیادہ تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وائرس میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے بچاؤ کے طریقے بھی وہی ہیں جو بچاؤ کے طریقے ہوتے ہیں، بچوں اور بڑی عمر کے افراد کو احتیاطی ویکسین لگوائی جائیں، کئی مغربی ممالک میں فلو کی ویکسین بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے ساتھ نوجوانوں کو بھی لگائی جاتی ہیں، جن افراد کو اس قسم کی علامات ہیں تو کوشش کریں کہ وہ بچہ اسکول نہ جائے یا وہ افراد دفتر نہ جائیں تاکہ دیگر افراد محفوظ رہ سکیں، اگر کسی کو فلو ہے تو اس سے ہاتھ ملانے سے اجتنات کیا جائے اور ملاقات کم کی جائے۔

مزید خبریں

Back to top button