سوڈان کے شہر الفاشر میں ناقابل تصور مظالم،10دن میں غم کا شہر بن چکا،اقوام متحدہ

نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ نے سوڈان میں جاری لڑائی پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورس کے قبضے کے بعد الفاشر میں ناقابل تصور مظالم ہورہے ہیں۔ محض 10 دنوں میں خوفناک حملوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ الفاشر ’غم کا شہر‘ بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ لی فانگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک ویڈیو میں کہا کہ گزشتہ 10 دنوں میں الفاشر میں خوفناک حملوں میں اضافہ ہوا ہے، یہ اب غم کا شہر بن چکا ہے، وہ شہری جو 18 ماہ کی محاصرے اور لڑائی سے بچ گئے تھے، اب ناقابلِ تصور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں عورتیں، بچے اور وہ زخمی بھی شامل ہیں جو ہسپتالوں اور سکولوں میں پناہ لینے گئے تھے، پورے پورے خاندان بھاگتے ہوئے مارے گئے ہیں اور کئی لوگ لاپتہ ہو گئے ہیں۔
وہ شہری جو 18 ماہ کی محاصرے اور لڑائی سے بچ گئے تھے، اب ناقابلِ تصور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں
امدادی تنظیموں نے بتایا ہے کہ شمالی دارفور کے دارالحکومت سے بھاگنے والے ہزاروں لوگ تویلہ نامی قصبے میں نہایت خراب حالت میں پہنچے ہیں،جنہیں خوراک، دوائی، پناہ کے سامان اور نفسیاتی مدد کی شدید ضرورت ہے۔
سوڈان کی ایک امدادی تنظیم کی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ لوگ ایک بنجر علاقے میں رہ رہے ہیں جہاں بمشکل چند خیمے موجود ہیں، جن میں سے اکثر پرانے ترپال اور چادروں سے بنائے گئے ہیں، کچھ خاندان دن میں صرف ایک کھانے پر گزارا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے بتایا کہ بچوں اور بڑوں دونوں میں انتہائی زیادہ غذائی قلت دیکھی جا رہی ہے، نارویجن ریفیوجی کونسل کی نمائندہ نے کہا کہ کئی خاندان ایسے بچے ساتھ لائے ہیں جو ان کے اپنے نہیں ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ بچے ایسے ہیں جن کے والدین راستے میں گم ہو گئے، گرفتار کر لیے گئے یا مارے گئے۔
ییل یونیورسٹی کی ہیومنیٹیرین ریسرچ لیب کی 28 اکتوبر کی رپورٹ میں اجتماعی قتلعام کے شواہد ملے، جن میں مصنوعی سیارے کی تصاویر میں خون کے تالاب بھی دیکھے گئے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کے مطابق 82,000 سے زیادہ لوگ الفاشر اور آس پاس کے علاقوں سے بھاگ چکے ہیں،جنسی زیادتی اور نسلی بنیاد پر تشدد جاری ہے
بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کے مطابق 82,000 سے زیادہ لوگ الفاشر اور آس پاس کے علاقوں سے بھاگ چکے ہیں، الفاشر کی آبادی تقریباً 2,60,000 تھی، شہر میں پھنسے شہریوں کو نکلنے نہیں دیا جا رہا، خدشہ ہے کہ وہاں بدترین مظالم جیسے کہ فوری سزائے موت، جنسی زیادتی اور نسلی بنیاد پر تشدد جاری ہے۔
دارفور میں انسانی بحران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ لڑائی اب قریبی علاقے کردفان تک پھیل چکی ہے، الابیض (صوبہ شمالی کردفان کا دارالحکومت) میں ایک ڈرون حملے میں کم از کم 40 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ RSF جلد ہی الابیض پر حملہ کرے گی، کیونکہ اس نے حال ہی میں بارا نامی قصبہ (جو تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں ہے) پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں 36,000 سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
الابیض ایک اہم سپلائی روٹ پر واقع ہے جو دارفور کو دارالحکومت خرطوم (400 کلومیٹر دور) سے جوڑتا ہے، اس پر قبضہ RSF کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق اس جنگ میں اب تک 40,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق اس جنگ میں اب تک 40,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
دو سالہ جنگ کے باوجود کوئی کمی کے آثار نہیں، اگرچہ کوآڈ گروپ (مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ) کی جانب سے ایک جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
آر ایس ایف نے اس تجویز پر مثبت ردِعمل دیا، مگر اگلے ہی دن خرطوم اور اتبارہ (دارالحکومت کے شمال میں) میں دھماکوں کی اطلاعات ملیں، جو فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
جنگ بندی کے اس منصوبے کے تحت تین ماہ کی انسانی ہمدردی پر مبنی جنگ بندی کے بعد ایک مستقل فائر بندی اور پھر سول حکومت کی منتقلی کی راہ ہموار کی جائے گی، تاہم حکومت (جو زیادہ تر شمالی، مشرقی اور وسطی سوڈان پر قابض ہے) نے تاحال اس تجویز پر کوئی عوامی ردِعمل نہیں دیا۔
دارفور کے گورنر منی آرکو مناوی نے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی میں RSF کے انخلا کی شق شامل نہیں ہوگی، تو اس کا مطلب سوڈان کی تقسیم ہوگا، الفاشر کے سقوط کے بعد RSF نے دارفور کے پانچوں صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے، جس سے ملک عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔



