1400 مظاہرین کی ہلاکت: شیخ حسینہ واجد کے خلاف فیصلہ جلد متوقع

ڈھاکہ(مانیٹرنگ ڈیسک) بنگلہ دیش کے ایک خصوصی ٹریبیونل کی جانب سے سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف جاری انسانیت کے خلاف جرائم کے ایک مقدمے کا فیصلہ آج آنے کی توقع ہے۔
شیخ حسینہ واجد پر الزام ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں اپنی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
اس فیصلے کے موقع پر گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مارے جانے والے افراد کے لواحقین بھی عدالت میں موجود ہیں، فیصلے کے بعد کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں، ۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کے علاوہ ریپڈ ایکشن بٹالین اور بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ سال موسم گرما میں مظاہروں کے دوران 1400افراد ہلاک ہوئے تھے، سابق وزیرِاعظم پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں کی ماسٹر مائنڈ ہیں، شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
رواں سال بی بی سی آئی نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے فون کی ایک ایسی آڈیو کی تصدیق کی جس سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال بنگلہ دیش میں طلبہ کی سربراہی میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاون کرنے کا حکم انہوں نے ہی دیا تھا۔
اس آڈیو میں، جو مارچ میں آن لائن لیک ہوئی، حسینہ واجد کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ مظاہرین کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کریں اور جہاں بھی انہیں دیکھیں، گولی مار دیں۔
اس ریکارڈنگ میں حسینہ واجد کو ایک سینیئر حکومتی اہلکار سے بات چیت کرتے سنا جا سکتا ہے جو اب تک سامنے آنے والا سب سے اہم ثبوت ہے کہ انہوں نے حکومت مخالف مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت نواز سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیں۔



