عمران خان سیاسی فورسز کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی نظام ٹھیک کرنے پرآمادہ نہیں،راناثنااللہ

اسلام آباد(جانوڈاٹ پی کے)راناثنااللہ نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 11سال بعد بھی ہم سانحہ اےپی ایس کی مذمت کر رہے ہیں، دہشتگرد کیڈٹ کالج میں بھی سانحہ اےپی ایس جیسا واقعہ کرنا چاہتے تھے، قوم نے دہشتگردوں سےآہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
راناثنااللہ نے کہا کہ جودہشتگردوں سے بات کا درس دے رہے ہیں ان سے بھی آہنی ہاتھوں سے بات کرنی چاہیے، 11سال پہلے قوم کسی ایک بات پر متفق نہیں تھی، 11سال پہلے اچھےاور برے طالبان کی باتیں ہوتی تھیں، پہلے قوم دہشتگردی کے خلاف یکسو نہیں تھی، سانحہ اےپی ایس کےبعد قوم ایک ہوئی،پھردہشتگردی ختم ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ابہام پیدا کیا گیا،دوبارہ دہشتگردوں کو واپس لایاگیا، کن لوگوں نے دہشتگردوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیا؟ دہشتگردوں سے مذاکرات ہوئے انہوں نے واپس آکر وہی شروع کر دیا، اللہ کا شکر ہے کیڈٹ کالج پر حملہ ناکام ہوا،ورنہ 16 دسمبر سے بڑا واقعہ ہو جاتا، آج کیوں کہا جا رہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن نہیں ہونا چاہیے، آج کیوں کہا جا رہا ہے کہ دہشتگردوں سے بات کرنی چاہیے،یہی چیز ابہام پیدا کرتی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نے بریفنگ دی تھی،اُس وقت کی حکومت بھی شامل تھی، بریفنگ دی گئی کہ یہ حالات ہیں، بریفنگ دی گئی تھی کہ بچوں اور خواتین کاکیا قصور ہے، بریفنگ دی گئی کہ کیوں نہ انہیں واپس آنے دیاجائے، کہا جا رہا تھا کہ دہشتگرد ہتھیار رکھیں گے،آئین و قانون کے تحت معاشرے کا حصہ بنیں گے، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی بھی مخالفت کی جارہی ہے۔
سینیٹر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی مسلح جدوجہد پر تلے ہوئے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے مسلح جدوجہد کرنی ہے تو پھر ایکشن ہو گا، 25مئی،9مئی اور 26 نومبر کو مسلح جدوجہد تھی، اس 26نومبر کو بھی مسلح جدوجہد کا ارادہ تھا،لیکن نہیں ہو سکی، دہشتگردی کے خاتمے کا فیصلہ ہو گیا،اس میں کوئی ابہام نہیں، تحریک انصاف کسی واقعے کا انتظار کررہی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہناتھا کہ نوازشریف نے فیض حمید کی سزا کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، نوازشریف نے صرف کہا کہ مکافات عمل ہے،اس سےزیادہ بات نہیں کی، کسی شخص نے خلاف ورزی کی اور ادارے نے احتساب کیا تو اس پر اطمینان کا اظہار ہو سکتا ہے، فیض حمید پر ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے،اس میں اختیارات کاناجائز استعمال ہے، اختیارات کے غلط استعمال میں ٹاپ سٹی والا کیس ہے، فیض حمید اکیلے نہیں،پورا نظام کام کررہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا پورا نظام بانی پی ٹی آئی کو لایاتھا،اس سے کسی نے انکار نہیں کیا، جنرل باجوہ نے مجھے کہا تھا آپ موٹے ہو گئے،پتلا کرنا ہے، جنرل باجوہ مجھ سے پوچھتے تھے کیا معاملات چل رہے ہیں، فیض حمید کھڑے تھے،جنرل باجوہ کو میں نے کہا تھاآپ کی مرضی سے مجھ پر مقدمہ بنا، جنرل باجوہ نے کہا تھا انہوں نے مجھ پر مقدمہ نہیں بنایا،ادھر اُدھر سے لوگ حکم لیتے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ سیاسی نظام درست ہو جائے تو ہمیں اس سے بڑا انتقام اور ریلیف نہیں چاہیے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت پر پہنچنے تو یہ تیسرے صاحب آگئے، بانی پی ٹی آئی سیاسی فورسز کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی نظام ٹھیک کرنے پرآمادہ نہیں، بانی پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے،خود مسلح جدوجہد چاہتے ہیں۔



