مذاکرات کا ’’الاپ‘‘اورمقبول بیانیئےکا’’اسیر‘‘

سیاستدان مصالحت پر راضی ہوگئے توکیا اسٹبلشمنٹ’’سکیورٹی رسک عمران‘‘سے مذاکرات کی اجازت دے گی؟

امدادسومرو

مذاکرات اور تحریک ایک ساتھ،یہ حکمت عملی اختیار کی ہے حزب اختلاف کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے،حکومت کے اندر سے بھی مذاکرات کے ذریعے سیاسی درجہ حرارت کم کر کے ڈیڈلاک کی خاتمے کیلئے توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے کہ سیاسی قوتوں نے تحریک انصاف یا عمران خان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار مذاکرات کا باضابطہ آغاز بھی ہوا لیکن عمران خان نے خود ہی مذاکرات کو ناکام بنایادیا۔Imran Khan's jail expense jumps to Rs700,000 a month after Bushra Bibi's imprisonment

سیاسی ڈیڈ لاک نے ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کر رکھا ہے،اب سوال یہ ہے کہ ملک کو بانی تحریک انصاف عمران خان کی ہٹ دھرمی کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گایا بحران ناقابل علاج ہونے سے پہلے مذکرات کی کوئی گنجائش نکالی جائے گی؟۔

تحریک تحفط آئین پاکستان کی قومی کانفرنس کے ساتھ لاہور میں خواجہ رفیق شہید فائونڈیشن کے زیر اہتمام ان کی برسی کی تقریب ہوئی جس کے میزبان حکمران جماعت مسلم لیگ(ن )کے سرکردہ رہنما خواجہ سعد رفیق تھے۔اس میں سیاسی رہنماؤں ،نامور صحافیوں اور دانشوروں نے بھی شرکت کی۔PML-N stalwarts back call for political dialogue - Newspaper - DAWN.COM

دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی معاملات یا سیاسی بحران پر جو گفگتو اسلام آباد میں حزب اختلاف کے اکٹھ میں ہوئی اسی سے ملتی جلتی گفگتو لاہور میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے والد کی برسی کی تقریب میں ہوئی۔یعنی ڈائیلاگ اور مسئلے کا سیاسی حل۔

حزب اختلاف کے 13نکاتی اعلامیہ میں عمران خان سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی، لاپتہ افراد کی بازیابی،ماہرنگ بلوچ کی رہائی، اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں کا خاتمہ، عدلیہ کی آزادی،صوبائی خودمختاری کی پاسدرای سمیت کئی اور مطالبات کے ساتھ فوری طور پر عام انتخابات کروانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔حزب اختلاف کا الزام ہے کہ 8فروری 2024کو انتخابات میں دھاندلی کر کے عوامی مینڈیٹ کو چھینا گیا،اس لئے نئے الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد فوری طور پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں۔ساتھ ہی اگلے سال 8فروری کو انتخابات کو 2سال مکمل ہونے والے دن ملک گیر پہیہ جام،شٹر ڈاؤن ہڑتال اور عالمی سطح پر یوم سیاہ کی کال بھی دی گئی۔Opposition ready for dialogue with govt, demands release of political prisoners

حزب اختلاف کے اتحاد نے تحریک کے اعلان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بھی ایک بار پھر کھولا اور کہا گیا کہ پاکستان جن بحرانوں سے دوچار ہے اس سے صرف ڈائیلاگ کے ذریعے سے نمٹا جا سکتا ہے۔لہٰذہ تمام جماعتوں کے مابین ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ علامیے میں ایک اور میثاق جمہوریت کو بھی لازمی قرار دیا گیا ۔

نوازشریف تمام تلخیاں اور تکالیف بھلا کر مذاکرات کیلئے کردار ادا کریں،خواجہ سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں اپنے قائد میاں نواز شریف صاحب پر زور دیا کہ وہ تمام تلخیاں اور تکالیف بھلا کر مذاکرات کیلئے کردار ادا کریں۔ انہوں نے مثال دی کہ پیپلز پارٹی نے ان کے والد خواجہ رفیق کو شہید کیا مگر جب پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنا پڑا تو ہم نے ہنس کر اس فیصلے کو قبول کیا۔ اسی طرح عمران خان نے جو زیادتیاں کیں اس کے باوجود بحران کا حل مذاکرات میں ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر حالات اور بحران کے ذمہ دار عمران خان ہیں جنہوں نے نو مئی جیسے حملے کروائے۔ مگر نواز شریف تمام جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھائیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔جو بات خواجہ سعد رفیق نے کہی وہی بات اپنے انداز میں محمود خان اچکزئی ایک روز پہلے اپنے انداز میں کہی۔انہوں نے کہا تھا آئیں سب مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کو معاف کریں اور آگے بڑھیں۔

حکمران اور اپوزیشن اتحاد کیلئے مشکل صرف’’عمران خان‘‘،وہ مقبول بیانیے کے ’’یرغمالی‘‘ ہیں

حکمران یا اپوزیشن اتحاد کیلئے مشکل صرف ایک ہے اور وہ ہیں عمران خان ،جنہوں نے اس پورے نظام کو اپنی ہٹ دھرمی کا یرغمال بنایا ہوا ہے اور عمران خان خود اپنی مقبولیت اور زمینی حقائق سے بہت دور مگر مقبول بیانئے کے یرغمالی ہیں۔ عمران خان کے تشکیل دئے گئے سوشل میڈیا کے بھوت نے ان کی جماعت کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر مذاکرات ہونے ہیں تو پہلے عمران خان کو اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنا ہوگی،تحریک انصاف کو سوشل میڈیا کے دباؤ سے باہر آنا ہوگا۔ایک اور مسئلہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا یعنی اگر عمران خان مان گئے تو کیا اسٹیبلشمنٹ حکمران اتحاد کو یا نواز شریف کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ عمران خان سے مذکرات کریں جن کو سکیورٹی رسک قرار دیا جا چکا ہے؟۔

سیاستدانوں نے فیصلہ کرلیا تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا

سو معاملہ بہت پیچیدہ ہو چکا ہے مگر اگر سیاستدان یہ فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے ہر صورت نئے میثاق جمہوریت کی طرف جانا ہے وہ اپنی اناؤں سمیت تمام تر پابندیوں سے خود کو آزاد کر لیتے ہیں تو پھر راستہ نکل آئے گا۔اسی طرح ہی ملک میں سیاسی قوتیں مضبوط ہوں گی، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل کم ہوگا اور بحرانوں کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ اگر دو ہزار چھ میں بینظیر بھٹو شہید اور نواز شریف میثاق جمہوریت کر سکتے ہیں تو آج 2025یا 2026میں تمام جماعتیں بیٹھ کر نیا میثاق کیوں نہیں کر سکتیں ؟۔

آخری بات اگر ڈائیلاگ کا آغاز ہوتا ہے اور عمران خان پھر ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں تو اس سے سب سے زیادہ نقصان بذات خود عمران خان کا ہوگا۔

مزید خبریں

Back to top button