چین اپنا یار ہے (قسط 2)

نوشیروان وڑائچ
شینزن کے علاقے یونیورسٹی ٹائون میں ہمیں ملنے والی رہائش گاہ تقریباً آٹھ بائے دس کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھاجس میں ایک باتھ روم اور چھوٹا سا ٹیرس ائیریا تھا، کمرے میں ایک بنکر بیڈ ، ایک کرسی اور میز تھا، تھکاوٹ میں انجان ملک میں انجانے خوف کے درمیان گزری پہلی رات سمجھیں پلک جھپکنے میں گزر گئی، مگر اس دوران میری بیوی فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ اس چھوٹی سی جگہ پر نہیں رہے گی اور پھر ہوا بھی یوں کہ اگلے ہی روز ہم اس سے بہتر ایک اور رہاشگاہ میں منتقل ہوگئے۔ یہ سوفن لینڈ کے نام سے ایک پرائیویٹ پراپرٹی کمیونٹی ہے جہاں آٹھ، آٹھ منزلہ قریب پندہ ، سولہ عمارتیں ہیں، اسی احاطے کے اندر ڈیپارٹمنٹل سٹور(جو بعض اوقات بغیر دکاندار کے خودکار نظام پر ہی چل رہا ہوتا ہے، اس کی تفصیل بھی آگے تحریر کا حصہ بنے گی)،کافی شاپ، نائی کی دکان، کچھ ریسٹورانٹ جن میں سے بیشتر چینی کھانوں کے جبکہ صرف ایک حلال چینی فوڈ ریسٹورانٹ بھی ہے۔
تقریباً پورے چین میں آن لائن سامان منگوانے کا ٹرینڈ بہت زیادہ ہے ،اس لیے کہہ لیں کہ ہر پانچ سومیٹر بعد ایک کورئیر شاپ بھی ہے جہاں مختلف ریک اور شیلفیں ہوتی ہیں ، آپ کا آن لائن منگوایا گیا سامان آپ کی قریبی کورئیر شاپ میں کس ریک کے؟ کس شیلف پر؟ پڑا ہے آپ کو موبائل پر ہی اس کی پوری تفصیل مل جاتی ہے، بس متعلقہ دکان پر جائیں ، اپنا سامان اٹھائیں ، وہاں لگی خودکار مشین پر سکین کریں اور گھر لے آئیں، ہاں البتہ فوری کھانے پینے کی اشیا جیسے کہ دودھ ، ڈبل روٹی، انڈے، سبزیاں وغیر ہ آن لائن خریداری پرصرف تیس منٹ کے اندر آپ کے دروازے تک آپہنچتی ہیں، یہاں اصول یہ بنایا گیا ہے کہ اگر آپ کا آرڈرتیس آر ایم بی یا اس سے زیادہ کا ہے تو کوئی اضافی رقم نہیں ، البتہ اس رقم سے کم ہونے پرتین آر ایم بی اضافی دینا ہوں گے، اس آن لائن خریداری کے ٹرینڈ کی وجہ سے آپ کو ہر وقت سڑک پر ڈلیوری بوائز کی دوڑ لگی نظر آئے گی، ہر ڈیلوری بوائے زیادہ سے زیادہ آرڈر مکمل کرنے کیلئے ہمیشہ جلدی میں ہی ملے گا۔
تو شینزن میں ہماری پہلی صبح ، ہمیں چین کے سفر پر لے جانے کی وجہ بننے والی میری بیوی جس نے اب اگلے چار سال یہاں پی ایچ ڈی کرنا ہےصبح سویرے یونیورسٹی چلی گئی کیوں کہ یونیورسٹی میں رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنے کے بعد یہاں کی سم کارڈ، بینک اکائونٹ اور دیگر کارروائی مکمل کرنا تھی۔ یہاں چین میں ایک دلچسپ اصول یہ ہے کہ آپ کو یہاں آنے کےچوبیس سےاڑتالیس گھنٹے کے اندر متعلقہ پولیس سٹیشن میں اپنی رجسٹریشن کروانا ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ مرحلہ تھا، ٹیکنالوجی میں جدت کے باعث یہ پولیس رجسٹریشن کا عمل آن لائن کرنا بھی ممکن ہے مگر بدقسمتی کہیے کہ میرا یہ عمل آن لائن نہیں ہو پارہا تھا، ہر بار کوشش کرنے پر ایرر آجاتا۔ اور اسی کوشش کے دوران چین میں مڈ آٹم فیسٹیول کی چھٹیوں کا وقت آگیا جو عموماً یکم اکتوبر سےآٹھ اکتوبر تک ہوتی ہیں۔ چھٹیوں سے ایک، دو روز قبل ہمیں اپنا متعلقہ پولیس سٹیشن ڈھونڈنے کیلئے کئی چکر ٹیکسیوں پر اور کئی کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنا پڑا۔ مگر ہر بار ناکامی کامنہ نظر آیا ، اس دوران یہاں ڈاکومینٹیشن مکمل کرنے کیلئے ایک خاص میڈیکل سنٹر سے اپنا میڈیکل بھی کروانا تھا، اس سفر کیلئے پہلی بار ہم نے شینزن میڑو کا استعمال کیا، جو اپنی جگہ ایک دلچسپ تجربہ تھا،خیر اللہ اللہ کرکے پولیس رجسٹریشن، تفصیلی میڈیکل رپورٹ اور رہائش کا معاہدہ کرنے کے بعد اگلی باری تھی شینزن، چین میں رہنے کا اجازت نامہ حاصل کرنا۔دس اکتوبر کو اس ریزیڈنس پرمٹ کیلئے جمع کروائی گئی درخواست پردس دن بعد عارضی رہائشی اجازت نامہ مل گیا جو ایک سال تک کیلئے کار آمد تھا،اکتوبر میں مڈآٹم فیسٹیول کی چھٹیوں میں چین کا قومی دن اور مون ڈے سیلیبریشنز بھی ہوتی ہیں، مون ڈے سیلیبریشن سے مرادچودھویں کے پورے چاند پر چینی عوام دوستوں اور رشتہ داروں میں مون کیک تقسیم کرتے ہیں، اور یہ عمل اس محبت سے کیا جاتا ہے کہ اگر آپ انکار کریں گے تو مطلب آپ اپنے چینی مہربان کی توہین کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ مون کیک کھانا کوئی آسان کام نہیں(مخصوص چینی اجزا،ذائقے کی وجہ سے)اسی لیے ہم نے اس دوران ملنے والے مون کیک مقامی چینی باشندے جو صفائی ستھرائی یا بظاہر کسی اور چھوٹے موٹے کام سے منسلک ہیں کو دینے کی کوشش کی تو سب کی زبان پر ایک ہی انکار تھا، اور یہ انکار سن کر ایک ہی خیال آتا تھا کہ اگر ہم پاکستان میں یہ عمل کرتے تو لینے والے لڑ جھگڑ کر یہ چھوٹا سا کیک حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
(جاری ہے)



