سلسلہ کہاں رکے گا ؟

امداد سومرو

پاکستان کی طاقتور ترین ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، انہیں یہ سزا اپنے ہی ادارے یعنی فوج کی عدالت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے سنائی گئی۔ فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کر کے فیض حمید کے خلاف پندرہ ماہ تک جاری رہنے والے ٹرائل کے فیصلے کا اعلان کیا۔ اعلامیے میں جو چار الزامات ثابت ہونے پر فیض حمید کو سزا سنائی گئی ان کا بھی ذکر کیا گیا مگر یہ بھی واضح کیا گیا کہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا ۔ اعلامیے کے آخری حصے میں فیض حمید اور تحریک انصاف کی قید بانی عمران خان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔

اعلامیے کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کرکے سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے میں ملزم کی مبینہ شمولیت سمیت کچھ دیگر معاملات پر الگ سے کارروائی جاری ہے۔

اب اگر اس جملے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ یہ عمران خان اور فیص حمید ملی بھگت کر کے جو کچھ کیا جاتا رہا اس پر بھی بڑی کارروائی یعنی کورٹ مارشل ہوگا ۔

فیض حمید کو گرفتار کرنے کے بعد گذشتہ برس بارہ اگست کو جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں ٹاپ سٹی سکینڈل اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کا ذکر تھا بعد میں ٹرائل کے دوران آئی ایس پی آر کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا گیا کہ فیص حمید کے خلاف نو مئی کے حملوں میں ملوث ہونے کی بھی انکوائری کی جا رہی ہے ۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید پر جن چار الزامات میں ٹرائل کیا گیا ان میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی و مفاد کے خلاف تھی، اختیارات اور وسائل کا ناجائز استعمال اور چوتھا شہریوں کو نقصان پہنچانا شامل ہیں۔

جب کہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملکر انتشار اور عدم استحکام پھیلانے سمیت دیگر معاملات میں اس کی مداخلت کے پہلو علیحدہ طور پر دیکھے جا رہے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے پہلو ہیں۔ انتشار اور عدم استحکام پھیلانے کیلئے کیا کیا گیا اور کس کی ملی بھگت سے کیا گیا ۔

انتشار اور عدم استحکام پھیلانے کی سب سے بڑی سازش نو مئی کے حملوں کو سمجھا جاتا ہے اور اس حوالے سے فوج ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا موقف بہت واضح ہے۔ وہ سمجھتے ہیں نو مئی آرمی چیف کے خلاف فوج کے اندر سے بغاوت کرنے کی سازش تھی جس میں عمران خان اور فیض حمید ملوث تھے۔ اب جہاں تک حملوں کے دیگر ملزمان کا تعلق ہے تو ان میں سے 105 کے قریب ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا، کچھ رہا ہوئے دیگر کو سزائیں سنائیں گئیں ، جن میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل ہیں۔ دیگر ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چل رہا ہے وہاں سے بھی کئی رہنمائوں اور کارکنوں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں ۔ عمران خان کے خلاف بھی جی ایچ کیو حملہ کیس اور نو مئی کے دیگر حملوں کے مقدمات کا ٹرائل چل رہا ہے مگر آئی ایس پی آر کے اعلامیے کا آخری جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نو مئی کے حملوں پر بھی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے ، ساتھ سیاسی عناصر کی ملی بگھت کا بھی ذکر ہے تو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عمران خان اور فیض حمید کو اس بار ایک ہی عدالت اور ایک ہی کٹہرے میں شریک ملزم کے طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ہو سکتا ہے وہ عدالت کورٹ مارشل ہی ہو ۔

اب رہا سوال جنرل قمر جاوید باجوہ کا تو فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد یہ مطالبہ بھی زور پکڑے گا کہ فیض حمید نے جو کچھ کیا وہ اکیلے نہیں کیا تھا اس وقت کے آرمی چیف بھی سب میں ملوث تھے سوائے نو مئی کے تو ان کا دیگر معاملات میں ٹرائل کیوں نہیں کیا جا رہا ۔ یہ مطالبہ تحریک انصاف کے حلقوں کی جانب سے ہی آئے گا اور وہی اس پر زیادہ زور دیں گے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیوں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کے ساتھ تھے اس لئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی اور الزام تحریک انصاف لگاتی بھی رہی ہے ۔ سلسلہ چل تو پڑا ہے اب دیکھیں کہاں جا کر رکتا ہے۔

مزید خبریں

Back to top button