فوجی عدالتوں کے حکم پر کتنے اعلیٰ افسران کو سزائے موت ہوئی؟

لاہور(شکیل ملک \جانوڈاٹ پی کے)سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے  14 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کے ساتھ ہی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جیسے ہی یہ بتایا گیا کہ سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر انتشار اور عدم استحکام پھیلانے سمیت دیگر معاملات میں فیض حمید کی مداخلت کے پہلو علیحدہ طور پر دیکھے جا رہے ہیں تب سے یہ بحث جاری ہے کہ اب شاید فیض حمید کے خلاف 9 مئی کے معاملے پر بغاوت کی سازش پر کارروائی ہوسکتی ہے اور اس کیس میں انہیں سنگین سزا ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہاہے۔

فیض حمید کیس کا فیصلہ آتے ہی ملک بھر میں ایک بار پھر اعلیٰ سطح پر ہونے والے کورٹ مارشلز کی تاریخ موضوعِ گفتگو بن گئی ہے۔ ملک میں فوجی احتساب کے کئی اہم مقدمات پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے عوامی توجہ حاصل کی اور ادارہ جاتی کارروائیوں کی مثال بنے۔

پاکستان کی فوجی تاریخ میں متعدد ایسے سینیئر افسران گزرے ہیں جن کے خلاف سنگین الزامات پر کارروائیاں ہوئیں۔ تاہم آج تک کسی بھی تھری سٹار یا فور سٹار جنرل کو سزائے موت نہیں ہوئی، چند تھری سٹار جنرلز کے خلاف کورٹ مارشل اور محکمانہ کارروائی کی اس کے بعد انہیں زیادہ سے زیادہ 14سال قید بامشقت کی سزا یا پھر عہدے سے برطرفی کی سزا دی گئی ہے۔

میجر جنرل اکبر خان کیس (راولپنڈی سازش کیس – 1951)

یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی بڑی فوجی بغاوت کی کوشش تھی۔ میجرجنرل اکبر خان اور دیگر سول و فوجی افسران پر مقدمہ چلا۔ انہیں مختلف سزائیں سنائی گئیں لیکن بعد میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سزائیں معاف کر دی گئی یا کم کردی گئیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر

2009  میں این ایل سی کو 1.8 ارب روپے کا نقصان ہوا جس پر پارلیمانی کمیٹی نے انکوائری کا حکم دیا۔ تحقیقات میں بے ضابطگیاں، ناقص فیصلے اور قواعد کی خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں

جنرل کیانی نے معاملہ نیب کے بجائے آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا۔ 2015 میں تحقیقات مکمل ہونے پر 2 ریٹائرڈ جنرلز سمیت متعدد افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔

خالد ظہیر کو سروس سے برطرف جبکہ افضل مظفر کو ’سیویئر ڈِسپلیژر‘ کی سزا سنائی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو حساس معلومات بیرونی ایجنسیوں کو دینے کے الزام میں مئی 2019 میں 14 سال قید کی سزا ہوئی، انہیں جیل میں قید بھی رکھا گیا تاہم بعد ازاں مختلف مراحل میں سزا کو کم کر دیا گیا۔جس کے بعد وہ رہا ہوگئے۔

میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور دیگر

1995 میں میجر جنرل عباسی اور متعدد افسران پر الزام لگا کہ وہ کور کمانڈرز کانفرنس پر حملہ کر کے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر جنرل عباسی کو 7 سال جبکہ بریگیڈیئر مستنصر باللہ کو 14 سال قید کی سزا سنائی۔ دیگر افسران کو 4-4 سال قید ہوئی۔

بریگیڈیئر (ر) علی خان

2011 میں بریگیڈیئر (ر) علی خان کو کالعدم تنظیم حزب التحریر سے تعلق اور فوج میں بغاوت کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

فوجی عدالت نے انہیں 5 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ان کے ساتھ متعدد میجرز کو بھی مختلف سزائیں دی گئیں۔

بریگیڈئیر (ر) راجہ رضوان

بھارت کیلئے جاسوسی کرنے کے الزام میں بریگیڈئیر (ر) راجہ رضوان کا کورٹ مارشل کیا گیا گیا  فوجی عدالت نے راجہ رضوان کو سزائے موت سنائی، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے راجہ رضوان کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔ راجہ رضوان عباسی کو 2019 میں اڈیالہ جیل کے پھانسی کھاٹ میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

انتظامی طور پر برطرفی کے واقعات

بعض سینیئر افسران کو کورٹ مارشل کے بجائے محکمانہ کارروائی کے تحت برطرف کیا گیا، جن میں سابق نامزد آرمی چیف جنرل (ر) ضیا الدین بٹ اور 2016 میں کرپشن کے الزام میں برطرف کیے جانے والے 2 حاضر سروس جنرلز بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے باوجود کورٹ مارشل نہ ہونے کے معاملات

اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے گئے، مگر بعد میں مؤثر پیش رفت نہ ہوسکی۔

بعد ازاں جنرل درانی کی کتاب Spy Chronicles پر بھی تحقیقات کا حکم ہوا، مگر کوئی حتمی کارروائی سامنے نہ آسکی۔

مزید خبریں

Back to top button