چین کا آٹو انقلاب! جرمنی کیلئےنئی صنعتی جنگ کا آغاز

فولکس ویگن اور مرسڈیز کی کمزورپرفارمنس،چینیEVs کی جیت

لاہور(سپیشل رپورٹ:جانو ڈاٹ پی کے)جرمنی نے100سال میں گاڑیوں کی صنعت میں معیار اور جدت کے نئے معیارات قائم کیے۔جرمن کاریں اپنی مضبوط مکینیکل انجینئرنگ، درستگی، اور پائیداری کے لیے مشہور تھیں۔

بی ایم ڈبلیو اور آؤڈی نے اپنی کلاسک ڈیزائن اور لگژری معیار سے عالمی اعتماد حاصل کیا

ٹیکنالوجی میں برتری میں برتری کے باعث جرمن کمپنیوں نے انجن ٹیکنالوجی، سیفٹی سسٹمز، اور ڈرائیونگ کنٹرول میں کئی دہائیوں تک سبقت برقرار رکھی۔لیکن اب دنیا اندرونی دہن والے انجنوں(Combustion Engines)سے نکل کر الیکٹرک انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہی تبدیلی جرمنی کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔China Premium Electric Car Brands Li Auto models - GuangcaiAuto

چین کا ابھارایک نیا صنعتی دیو

گزشتہ 15سال میں چین نے اپنی آٹو انڈسٹری میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے۔ چینی حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کیلئے سبسڈیز، ٹیکس چھوٹ، اور بیٹری ریسرچ فنڈنگ فراہم کی۔

 چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بیٹری مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا مالک ہے۔کمپنیوں جیسے CATLاورBYD نے عالمی مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ چینی کاریں سستی، جدید فیچرز سے بھرپور، اور تیزی سے چارج ہونے والی بیٹریوں کے ساتھ مارکیٹ میں موجود ہیں۔مثلاً، BYD، NIO، Xpeng، اور Li Auto جیسی کمپنیاں آج یورپ میں بھی جرمن کاروں کا مقابلہ کر رہی ہیں،خاص طور پر نوجوان نسل میں ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

جرمن آٹو انڈسٹری اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے

جرمن کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی میں تاخیر کا شکار رہیں۔بیٹری ٹیکنالوجی میں وہ اب بھی چین پر انحصار کرتی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق اور پیداوار کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔فولکس ویگن 2020میں چین اس کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی،مگر2025تکBYDنے اسے پیچھے چھوڑ دیا۔BYD Car Models Price in Pakistan (Updated 2025)

چینی کاروں کا عالمی پھیلاؤ

فرانس، جرمنی اور اٹلی میں BYD اور NIO کی گاڑیاں اب مقامی مارکیٹ کا حصہ بن رہی ہیں۔ کم قیمت اور بہتر فیول اکانومی کی وجہ سے چینی کاریں ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

ٹیسلا سے مقابلہBYDنے2023کےبعد سے ٹیسلا کو بھی کئی سہ ماہیوں میں پیچھے چھوڑا ہے۔جرمن کمپنیاں اب میدان میں واپس آنے کی کوشش کر رہی ہیں.مرسڈیز نےEQسیریز متعارف کروائی۔بی ایم ڈبلیو نے“Neue Klasse” کے تحت اپنی الیکٹرک لائن اپ پر کام تیز کیا۔فولکس ویگن نےرواں سال نئے  ای وی ماڈلز لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوششیں چینی رفتار کے مقابلے میں کافی ہوں گی؟German dealership Sternauto opens BYD store in Berlin | Reuters

2030 تک چین دنیا کی آٹو مارکیٹ میں سب سے بڑا ایکسپورٹر بن جائے گا۔

یورپی کارساز کمپنیاں اگر بیٹری ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انٹیگریشن میں پیچھے رہیں تو ان کا عالمی مقام خطرے میں ہے۔آنے والے برسوں میں دنیا کی گاڑیاں “جرمن انجینئرنگ” کے بجائے “چینی الیکٹرانکس” کی علامت بن سکتی ہیں۔دنیا بدل چکی ہے۔ وہ دور گزر گیا جب جرمن کاریں “پرفیکشن” کی مثال تھیں۔اب چین جدید ٹیکنالوجی،کم قیمت،اور اسمارٹ فیچرز کے ساتھ عالمی آٹو انڈسٹری کی سمت بدل رہا ہے۔اگر جرمن کمپنیاں وقت پر اپنی حکمت عملی نہ بدلیں تو وہی انجام ان کا ہوگا جو ایک وقت میں جاپانی کاروں نے امریکی کار ساز اداروں کا کیا تھا — تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔The bumpy road ahead in China for Germany's carmakers | Merics

مزید خبریں

Back to top button