طلبہ رہنما عثمان ہادی کی شہادت نے آگ لگادی!بنگلہ دیش بھر میں طلبہ کا پھر ملک گیر احتجاج،توڑپھوڑ،جلاؤگھیراؤ

ڈھاکہ(جانو ڈاٹ پی کے)بنگلہ دیش کے سٹوڈنٹ لیڈر عثمان ہادی کی فائرنگ سے شہادت کے بعد بنگلہ دیش بھر میں طلبہ ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے،جلاؤ گھیراؤ شروع کردیا۔احتجاج میں بھارت کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔بنگلا دیش کی روزنامہ اخبار کے مطابق ہادی جنہیں آئندہ فروری میں ہونے والے قومی انتخابات میں ڈھاکا-8 حلقے کے ممکنہ امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا، 12 دسمبر کو دارالحکومت ڈھاکا میں ایک بیٹری سے چلنے والی آٹو رکشا میں سفر کے دوران سر پر فائرنگ کا نشانہ بنے۔حملہ آور نے موٹرسائیکل پر سوار ہو کر انہیں نشانہ بنایا۔ ہادی کو فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا۔مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہادی کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا، جس کے بعد انہیں مزید علاج کے لیے 15 دسمبر کو سنگاپور جنرل ہسپتال کے نیوروسرجیکل آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

ہادی32سال کے تھے اور طلبہ احتجاجی گروپ انقلاب منچہ کے سینئر رہنما تھے۔ وہ بھارت کے سخت ناقد بھی رہے جو سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے قریبی اتحادی رہ چکے ہیں، اور حسینہ اب خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں۔انقلاب منچہ نے گزشتہ رات کو فیس بک پر اعلان کیا کہ ہندوستانی بالادستی کے خلاف جدوجہد میں اللہ نے عظیم انقلابی عثمان ہادی کو شہید قبول کر لیا۔پولیس نے ہادی پر فائرنگ کرنے والے حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ دو مرکزی مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے پانچ لاکھ ٹکا (تقریباً 42,000 امریکی ڈالر) انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنگلا دیشی حکام نے عثمان ہادی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے کی ہے، جبکہ اس کے ساتھی موٹرسائیکل چلانے والے شخص کی شناخت عالمگیر شیخ کے طور پر کی گئی ہے۔تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مشتبہ افراد بھارت کی سرحد سے غیرقانونی طور پر بنگلا دیش میں داخل ہوئے تھے اور واردات کے بعد بھارت ہی فرار ہو گئے۔بنگلا دیش کے ایک اخبار کے مطابق اب تک پولیس اور بارڈر گارڈز نے اس واقعے میں ملوث کم از کم 20 افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔مقامی میڈیا کے مطابق ہادی کی ہلاکت کی خبر کے فوراً بعد ڈھاکا اور ملک کے دیگر حصوں میں سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ایک گروپ ڈھاکا کے کرواں بازار میں ملک کے بڑے بنگالی زبان والے اخبار کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوا اور بعد میں عمارت میں داخل ہو گیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔چند سو گز دور مظاہرین نے ایک اور میڈیا سینٹر کے دفتر میں داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی جس کی تصاویر اور ویڈیوز کالر کانٹھا سمیت کئی مقامی میڈیا نے جاری کیں۔85سالہ نوبل امن انعام یافتہ اور فروری 12 کے انتخابات تک بنگلا دیش کے سربراہ یونس نے ہفتے کے روز کہا کہ ہادی پر فائرنگ ایک منصوبہ بند حملہ تھا، جسے ایک طاقتور نیٹ ورک نے انجام دیا۔Sharif Osman Hadi raises his arm as he calls out at at protest.

مزید خبریں

Back to top button