چین کی ایک صدی پر محیط قومی ذلت
چین میں’’افیون‘‘کی فروغ میں تاج برطانیہ کا ہاتھ

ژونگ ہا کی موت کے بعد چینی دربار نے اگلے 400کیلئے خود کو بیرونی دنیا سے کاٹ لیا۔ پہلے سمندری راستے محدود کیے اور پھر زمینی رابطے بھی کم کر دئیے۔ چین نے شمال سے منگولوں کے حملوں کے لیے دیوار چین کو مضبوط کرنا شروع کیا اور اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کی طرف زیادہ دیکھنا شروع کر دیا۔ بیرونی دنیا سے سلک اور چائے کی فروخت کے لیے کچھ رابطے قائم رہے، لیکن شہنشاہ اور دربار کا علمی، سیاسی اور ڈپلومیٹک رابطہ ایشیا سے، فار ایسٹ سے، افریقہ اور یورپ سے کٹ گیا۔ مڈل کنگڈم، عظیم "جونگوا” دنیا سے الگ تھلگ ہو گیا اور اس کا نقصان بھی عظیم الشان ہوا۔

یورپ جس انڈسٹریل ترقی سے گزر رہا تھا اور تیز ترین ترقی کر رہا تھا،چین کو اس کا کچھ بھی حصہ نہیں مل پایا۔ حالانکہ چین کو نئے آئیڈیاز کی بہت ضرورت تھی۔ اس کی آبادی امن اور خوشحالی کے لمبے عرصے میں بڑھنے لگی تھی۔کئی صدیوں تک وہی چین جس کی آبادی 6سے 7کروڑ تک رہی تھی جبکہ 14ویں سے 18ویں سنچری تک چین کی آبادی 2سے 3گنا بڑھ گئی۔اور ساتھ میں مغربی دنیا کا بھی یہی حال تھا۔ وہاں بھی انڈسٹرئیل ریولوشن اور امن کے باعث آبادی بہت بڑھ گئی تھی۔ ان کے پاس دولت آ رہی تھی اور ساتھ میں چائنیز پراڈکٹس کی مانگ بھی بڑھ رہی تھی۔ امیر لوگ چائنز سلک، چائے اور خوبصورت چینی برتنوں جنھی پارسلین کہتے تھے، ان کے دلدادہ تھے۔ چین سے ان چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی تھی۔ چین نے اس مانگ سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی آئسولیشن میں ایک رخنہ رکھا ہوا تھا۔ وہ یہ کہ انٹرنیشنل ٹریڈ کے لیے صرف ایک پورٹ "گوئنگ ژو” کو وقف کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ چینی سامان کسی دوسرے راستے سے ایکسپورٹ یا امپورٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور بھی پورٹس تھیں، لیکن ان سے عظیم الشان چینی جغرافیے ہی کے لیے ٹریڈنگ ہوتی تھی، یا قریبی آئی لینڈز کے لیے کچھ آتا جاتا تھا۔ پھر اس صرف ایک پورٹ ایکسکلوسئیو رکھنے کے ساتھ چین نے ایک اور اہم قدم بھی لیا تھا۔ وہ یہ کہ چین غیر ملکی تاجروں سے، جو کہ زیادہ تر ڈچ اور انگریز تھے، اپنے سامان کے بدلے کرنسی نہیں بلکہ چاندی کے سکے لیتا تھا۔جس سے ہوتا یہ تھا کہ یورپی دولت، سفید سونا چاندی،چین کے اندر آتی جا رہی تھی،ا س کی معیشت بہتر ہو رہی تھی مگریورپین طاقتوں کو اس کا نقصان تھا۔وہ یوں کہ چین تو ان سے کچھ خاص خریدتا نہیں تھا،تو ٹریڈ بیلنس کیسے پیدا ہوتا؟یورپینز کے پاس ایسی کوئی پراڈکٹ نہیں تھی، جسے خریدنے کےلیے چین انٹرسٹڈ ہو۔حالانکہ اگر چین کی آئسولیشن پالیسی نہ ہوتی تو یورپ سے انڈسٹریل ایج کی بہت سی ٹریڈنگ ہو سکتی تھی۔ مگر چنگ شاہی دربار اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔مختصر یہ کہ چین اور یورپ کی تجارت میں بہت بڑا ٹریڈ غیر متوازن تھا اور چین کے حق میں تھا۔ یہ ٹریڈ امبیلنس، تجارت میں عدم توازن یورپ کی طاقتور حکومتوں، خصوصاً تاجِ برطانیہ کو بہت فرسٹریٹ کرتا تھا۔

انگلش دربار نے اس کا ایک خوفناک حل نکالا۔انھوں نے چین کو دی ہوئی چاندی کی دولت واپس لینے کیلئےغیر قانونی طور پرایک سیاہ رنگ کا پیسٹ،جسے حقے میں لگا کر سونگھنے پر نینداورخواب بہت اچھے آتے ہیں،وہ چین سمگل کرنا شروع کردیا۔ اسے اوپیم، افیون کہتے تھے۔بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملٹری افسران ہندوستانی کسانوں سے زبردستی افیون کی فصل کاشت کرواتے تھے،بڑے بڑے گوداموں میں چھتوں تک اس کے پیڑے سٹور کیے جاتے تھے۔اور پھر اس افیون کولکڑی کے ڈبوں میں،چیسٹس میں بھر کے غیر قانونی طور پر چین سمگل کیا جاتا تھا۔ایک چیسٹ میں 60سے 65کلوگرام افیون آ جاتی تھی۔ انگلش شاہی دربار اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فیصلہ کیا کہ اس افیون کی قیمت سلور کوئنز میں لی جائے گی تا کہ جو سفید دولت یورپ سے چین منتقل ہوئی ہے،اسے واپس لیا جا سکے۔مطلب چین سے تجارتی توازن کوغیر قانونی طور پر ہی سہی لیکن پرافٹ میں بدلا جائے۔ یہ صرف غیر قانونی ہی نہیں انتہائی غیر اخلاقی اقدام بھی تھا۔ کیونکہ افیون چین کی طرح برطانیہ میں بھی بین تھی اور اس کی تجارت پر موت کی سزا تھی۔ لیکن کنگ جارج دا تھرڈ ایسٹ انڈیا کمپنی سے یہ سب کروا رہے تھے۔ افیون کی سمگلنگ میں اتنا منافع تھا کہ بہت سے منافع خورچائنیز تاجر بھی ساتھ مل گئے اور چائنیز نوجوانوں کو افیون کی ان کٹ سپلائی شروع کر دی گئی۔ چائنا کی تیزی سے بڑھتی آبادی جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھی، اس کے نوجوان اپنے ملک کے لیے بوجھ اور دشمنوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن گئے۔ وہ سارا سارا دن ناکارہ چائے خانوں اور چوکوں پر پڑے رہتے، پائپس منہ سے لگائے افیون سونگھتے رہتے۔

برطانیہ نے انڈسٹریل سکیل پر اتنی زیادہ افیون سمگل کی کہ چین کی اکانومی اور یوتھ کیپیٹل تباہ ہو گیا۔18ویں صدی کے وسط میں چین میں 1ٹن افیون سمگل ہوتی تھی جو اگلی صدی کے شروع میں 203گنا بڑھ گئی۔1840میں برطانیہ چین میں 3ہزار ٹن افیون سمگل کر رہا تھا۔برطانیہ کم از کم 6کروڑ پاؤنڈ کے برابر دولت چین سے غیر قانونی افیون سمگل کر کے کما رہا تھا۔چین اپنی نوجوان نسل کو "پلے سے پیسے دے کر” کھو رہا تھااور ساتھ میں سلور گولڈ ریزرو بھی خالی ہو رہے تھے، کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ افیون کا کاروبار سلور کوئن میں ہوتا تھا، چائنیز کاپر کرنسی میں نہیں۔اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ کاپر کرنسی تیزی سے ڈی ویلیو ہونے لگی۔چاندی کی سلور کوئنز کی قیمت بڑھنے لگی۔ چین کے کسان،جن کے ٹیکس پر ملک چلتا تھا،انھیں ٹیکس بھی چاندی کے سکوں میں دینا پڑتا تھا۔مگر آمدنی تو کاپر کرنسی میں تھی۔کیونکہ کبھی سلور کا ایک اونس جو 7سے آٹھ سو کاپر کوئنز میں آتا تھا،وہ افیون سمگلنگ کے چند برس بعد ہی اڑھائی ہزار کاپر کوئنز تک پہنچ گیا۔کسان ٹیکس دینے کے قابل ہی نہ رہے۔اوپیم ٹریڈ کا یہ ریپل ایفکٹ چین کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔1794 میں کیا ہوا کہ 3سنٹرل ریجنز میں سیچوان، ہوبے اور شانژی میں کسانوں نے باقاعدہ بغاوت کر دی۔اس بغاوت کو منظم کرنے میں مقامی بدھ فرقے، وائٹ لوٹس کے بھکشوؤں نے بہت مدد کی اسی لیے اسے وائٹ لوٹس ریبیلین کہا گیا۔وائٹ لوٹس سوسائٹی نے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ "مائے ترئیا” یعنی بدھ کی دوبارہ آمد ہونے والی ہے جو کہ تمام دکھوں کا مداوا کر دیں گے۔ وہ چنگ شاہی ظلم سے بھی نجات دلا دیں گےاور معاشی صورتحال بھی شاندار کر دیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مائے ترئیا کے استقبال کے لیے شہنشاہ کا راج ختم کیا جائے۔(جاری ہے،حصہ دوم)



