پی آئی اے کی نجکاری ایک بہت بڑا اسکینڈل ہے، یہ نجکاری نہیں کھلی لوٹ مار ہے،چودھری منظور

سکھر(جانوڈاٹ پی کے)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر چودھری منظور اور پی آئی اے کی ٹریڈ یونین پیپلز ورکرز یونٹی کے مرکزی چیئرمین نے سکھر پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کو غیر شفاف، غیر منصفانہ اور جابرانہ عمل قرار دیا۔چودھری منظور نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے ذریعے قوم سے حقائق چھپا رہی ہے اور ایک مخصوص گروہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے قومی اثاثے کوڑیوں کے دام فروخت کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے جس کی اصل مالیت کم از کم 135 ارب روپے بنتی ہے، اسے محض 10 ارب روپے میں دینے کی تیاری کی جا رہی ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ نجکاری کے نام پر جس کمپنی کو پی آئی اے دیا جا رہا ہے، اس کے پاس اس وقت صرف 30 طیارے ہیں، جن میں سے 20 اس کے اپنے اور 10 لیز پر ہیں۔اس کے علاوہ پی آئی اے کے 8 بڑے بکنگ آفسز بھی اس گروہ کے حوالے کیے جا رہے ہیں، جن میں کراچی صدر، راولپنڈی مال روڈ، اسلام آباد بلیو ایریا، لاہور پنجاب اسمبلی کے سامنے واقع پلازہ، ملتان، گلگت اور پشاور کا قیمتی دفتر شامل ہے، جہاں صرف پشاور کی پراپرٹی تقریباً تین ایکڑ پر محیط ہے۔چودھری منظور نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ عمل شفاف تھا تو پی آئی اے کے انجینئرز اور ملازمین کی موجودگی میں انونٹری کیوں تیار نہیں کی گئی؟ہینگرز، اسپیئر پارٹس، سپورٹنگ مشینری، گراؤنڈ ہینڈلنگ گاڑیاں اور دیگر قیمتی اثاثوں کی اصل مالیت چھپائی جا رہی ہے،جو ان کے مطابق دس ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے نے گزشتہ سال 26 ارب روپے منافع کمایا اور رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں ساڑھے 11 ارب روپے منافع حاصل کیا ہے، جبکہ 13 طیاروں کے ساتھ بھی ایئر لائن منافع میں ہے۔ اگر تمام قابلِ استعمال طیارے بحال کر دیے جائیں تو اگلے سال منافع 40 سے 50 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔پیپلز ورکرز یونٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ پی آئی اے کو اصل نقصان ماضی کی غلط پالیسیوں سے پہنچا، جن میں 90 کی دہائی میں اوپن اسکائی پالیسی اور بعد ازاں پی ٹی آئی دور میں پائلٹس سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات شامل ہیں، جس سے قومی ایئر لائن کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا۔چودھری منظور نے واضح کیا کہ پی آئی اے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت قائم ادارہ ہے، جسے پارلیمانی منظوری کے بغیر فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی اس نجکاری کو اسمبلی، پارلیمنٹ اور عدالتوں میں چیلنج کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے ملازمین کو 12 فیصد شیئرز مفت دیے تھے، مگر نجکاری کے عمل میں نہ تو ملازمین سے اجازت لی گئی اور نہ ہی انہیں اس عمل میں شامل کیا گیا، جو آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔آخر میں مقررین نے کہا کہ یہ سودا ایم سی بی اسکینڈل سے بھی بڑا ہو سکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے پس پردہ عناصر بے نقاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی آئی اے کی نجکاری فوری طور پر روکی جائے اور قومی مفاد کے خلاف اس عمل کا آزادانہ آڈٹ کرایا جائے۔



