چین کی ایک صدی پر محیط قومی ذلت
چنگ شاہی فوج نے بغاوت کیسے کچلی،کتنے چینی باشندے مارے گئے؟

تحریر:فیصل وڑائچ
وائٹ لوٹس ریبیلن اتنا طاقتور تھا کہ اسے مکمل طور پر کچلنے میں چنگ شاہی فوج کو8سال لگ گئے۔1794سے 1804تک یہ لڑائی چلی۔چنگ شاہی فوج نے بغاوت کچل دی۔ بہت محتاط اندازے کے مطابق بھی اس میں ایک سے 2لاکھ کے درمیان چائنیز براہ راست مارے گئے۔ لیکن اس بغاوت کے اثرات سے مارے جانے والےاس سے کہیں زیادہ تھے۔تقریباً20 لاکھ کے قریب،کیونکہ اس خانہ جنگی سے فصلیں تباہ ہوئیں،نئی فصلیں اگائی بھی نہیں جا سکیں،کچھ موسم نے بھی ظلم ڈھائے،خشک سالی سے قحط پھیلا اور وبائی بیماریاں پھوٹ پڑیں۔ یہ ایک تباہ کن سانحہ تو تھامگر صرف آغاز تھا۔ کیونکہ اس بغاوت کے بالکل شروع کے دنوں ہی میں لندن سے ایک اور عذاب تیرتا ہوا چائنیز ساحلوں پر لنگر انداز ہو چکا تھا۔ اسے کنگ جارج تھری نے بھیجا تھا۔
1793میں برطانوی شہنشاہ کنگ جارج داسوئم نے ایک ہائی لیول وفد چین بھیجا۔ بظاہر یہ وفدچینی شہنشاہ چینگ لونگ کی83ویں سالگرہ پرکچھ تحائف لے کر آیا تھا۔لیکن یہ صرف دکھاوا تھا۔اصل میں وہ پیکنگ موجودہ بیجنگ میں ایک مستقل بزنس ہیڈ آفس مانگنے آئے تھےاوروہ بھی مکمل رائل رائٹس کے ساتھ۔ ایسا آفس جہاں سے وہ پورے چین میں اپنی افیون سمیت پوری سمگلنگ اور ٹریڈ ایمپائر کو ایک سنٹرل ہیڈ آفس سے ہینڈل کر سکیں۔بالکل اسی طرح جیسے انھوں نے ہندوستان میں کلکتہ میں پہلے اپنے ہیڈ آفس کے نام پر فورٹ ویلیم بنایا،پھر اس کی سکیورٹی کیلئے فوج رکھی اور پھر اسی فارمولے سے پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔
اسی مشن کے ساتھ لارڈ جارج میکارٹنی انگلش وفد کی سربراہی کرتے ہوئے چین پہنچے تو ان کے ساتھ ایک ماڈرن توپ،مکینیکل کلاک اور ٹیلی سکوپ سمیت کئی گفٹس تھے۔ایسے گفٹس جو پھلتی پھولتی ہوئی انگلش انڈسٹریل ایج کا جادو تھے۔مگر ہوا یہ کہ شہنشاہ نے اس وفد کو کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی۔شہنشاہ کو یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ جو گفٹس وہ لائے ہیں،وہ کس سائنسی ترقی کا نتیجہ ہیں لیکن شہنشاہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ اس نے انگریزوں کو بزنس ہیڈ آفس اور وہ بھی اتنے زیادہ رائٹس کے ساتھ ہرگز نہیں دینا۔شہنشاہ نے انگلش وفد کو بالکل اسی طرح ڈیل کیا جیسے مڈل کنگڈم کا عظیم شہنشاہ "دی سن آف ہیون” اپنی سلطنت کے گرد پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے نمائندوں کو ڈیل کرتا ہے۔دربارداخلے کیلئے لارڈ میکاٹنی کو لازم کیا گیا کہ وہ شاہی روایت کے مطابق شہنشاہ کے سامنے 3مرتبہ جھکیں گے اور9مرتبہ زمین پر سر کو ٹیکیں گے۔یہ شہنشاہ سے وفاداری اور مکمل سپردگی کا اظہار ہوتا تھا۔لارڈ میکارٹنی نے اس روایت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ چینی شہنشاہ، برطانوی بادشاہ کے وفد سے عام نمائندوں جیسا سلوک نہیں کر سکتا۔ایمپرر چیانگ لونگ نے برٹش وفد کی شرائط مسترد کری دیں اور انھیں خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔
انگلش وفدلندن میں کنگ جارج دا سوئم کے پاس واپس پہنچا تو یہ اس کیلئے کچھ ہی برسوں میں دوسری بڑی ذلت تھی۔ کیونکہ اس واقعے سے چند برس پہلے،1783میں10سال پہلے اس کی فوج کو مغرب میں اپنی 13کالونیز سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔امریکی کمانڈر جارج واشنگٹن کے سامنے انگلش کمانڈر لارڈ کارنوویلس نے ہتھیار ڈالے تھے اور پھر ٹریٹی آف پیرس میں یونائٹیڈ سٹیٹس نے برطانوی شاہ کو اپنا بادشاہ ماننے سے بھی سرکاری سطح پرانکار کر دیا تھا۔ انگلینڈ کو مغرب میں اتنی عظیم الشان ذلت کے بعد مشرق میں پھر ایک توہین کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بادشاہ جارج سوئم تو پاگل ہو گیا۔ اس نے اس ذلت کا جواب یوں دیا کہ چین میں ’’افیون‘‘کی سمگلنگ تیز کر دی۔چینی شہنشاہ تک خبریں پہنچیں تو اس نے پولیسنگ تیز کر دی۔
کینٹون، جسے آج "گوآنگژو” کہتے ہیں یہ چین کی غیر ملکی تجارت کے لیے واحد پورٹ تھی۔ یہیں برٹش تاجر آتے تھے اور افیون بھی اسی کے قرب و جوار سے سمگل ہوتی تھی۔1830کی دہائی میں یہاں شہنشاہ نے ایک سپیشل کمشنر "لِین ژیشو”کو تعینات کیا۔ اس کے ذمے تھا کہ وہ افیون کی سمگلنگ اور دوسری غیر قانونی تجارت کسی بھی طرح روکے۔کمشنر لِین ژیشو نے کینٹون میں ڈیرے لگا لئے اور افیون استعمال کرنے والوں کو اور بیچنے والوں کو سزائے موت دینا شروع کی۔مگر اس میں وہ ایک فرق رکھتا تھا۔وہ فارنرز پر ہلکا ہاتھ رکھتا تھا۔اس کے خیال میں مسئلہ چائنیزعوام میں تھا،امپورٹرز میں نہیں۔اس کی احمقانہ سوچ یہ تھی کہ اگر چینی عوام افیون خریدنا بند کر دیں گے توافیون کی درآمدات خوبخود بند ہو جائے گی۔ جب خریدنے والا ہی نہیں ہو گا تو پھر انگریز بیچیں گے کسے؟اب ظاہر ہے یہ ایک بیوقوفانہ تھی،سو اس کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلا۔حالانکہ اس نے قانون بنایا کہ جس کے پاس افیون سونگھنے والا پائپ ہو گا ضبط کر لیا جائے گا۔ایک لاکھ پائپ ضبط کر لیے۔ہزاروں چائنیزکو افیون بیچنے پر گرفتار کر لیا۔لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔وقت کے ساتھ اسے بھی سمجھ آنے لگی کہ جب تک افیون کی اندھادھند سپلائی نہیں روکی جائے گی،اس کی سپلائی چین کو نہیں توڑا جائے گا،چینیوں کو افیون کی لت سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ یعنی انگریزوں سے لڑائی مول لینا ہو گی۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ تب تک برطانوی بھی طاقتور ہو چکے تھے۔ امریکہ میں تھرٹین برٹش کالونیز کی بغاوت اور شکست سے انھیں جو صدمہ ملا تھا، اسے انھوں نے واٹر لو کے میدان میں نپولین بونا پارٹ کو شکست دے کر دھو ڈالا تھا۔برطانیہ کا امپیریل مورال ایک بار پھر آسمان پر تھا۔ وہ ایک بار پھر خود کو بین الاقوامی سپر پاور کے روپ میں ہی دیکھ رہے تھے۔1830کی دہائی میں وہ چین میں اتنی افیون بیچ رہے تھے کہ ان کی آفیشل تجارت سے زیادہ والیم افیون سمگلنگ کا تھا۔ صرف دو سال میں برطانیہ نے ایک کروڑ 40لاکھ ڈالرز کی افیون چینیوں کو بیچی۔ایک کروڑ چائنیز نشے کے عادی ہو چکے تھے اور ان میں ایک چوتھائی سرکاری آفیشلز تھے۔
سمگلرزاور ٹریڈرز تو ایک طرف کرسچین پادریوں نے اپنی الگ دکان کھولی ہوئی تھی جو چینی نوجوان پادری کو بائبل کا ایک چیپٹر سنا دیتا تھا،پادری اسے ایک پیکٹ مفت افیون دیتا تھا۔سونگھنے کیلئے چرچ کا دروازہ الگ سے ڈھال بنتا تھا۔برطانیہ،سکاٹ لینڈ،آئرلینڈ سے آئے پادری جیسز کے نام پر چندہ الگ سے لیتے تھے۔پھر انگریزوں نے یہ کام بھی شروع کر دیا کہ وہ چائنیز تاجروں سے صرف سلور ہی نہیں براہ راست افیون کے بدلے میں پراڈکٹس لینے لگے۔ یعنی ہمیں چائے،برتن اور سلک دے جاؤ اوربدلے میں افیون لے جاؤ۔مطلب حکومت کے ہاتھ ٹیکس کی کوئی رقم نہیں آ سکتی تھی اور نہ ہی امپورٹ ایکسپورٹ کا درست ریکارڈ رکھنا ممکن تھا۔سپیشل کمشنراورچائنیز شہنشاہ کی راتوں کی نیند اڑی ہوئی تھی۔لیکن چین براہ راست برطانوی تاجروں سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔
سو لِین ژیشو نے 20سال کی رشین بلڈ ملکہ برطانیہ الیگژینڈرینا وکٹوریہ کو خط لکھا۔اس خط کی اصل کاپی آج بھی موجود ہے۔ہاورڈ یونیوسٹی کی آن لائن لائبریری میں اس کا انگلش ترجمہ بھی موجود ہے۔کیورئیس فیلوز مختصراً لین ژیشو نے یہ لکھا کہ ملکہ عالیہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے مذہب میں افیون جیسا دھواں سختی سے منع ہےاور آپ کے ملک میں بھی اس کی تجارت پر سخت ترین سزا،موت کی سزادی جاتی ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کو آپ نے اور آپ کے مذہب نے اپنے ملک میں سختی سے بین کر رکھا ہے،اسے آپ دوسرے کے ہاں ایکسپورٹ کریں؟آپ کو کیسا لگے اگر کوئی دوسرا ملک آپ کے ملک کے لوگوں کو افیون اور نشے کے دھویں کا عادی کرنے لگے؟۔
کمشنر نے پورے مراسلے میں شہنشاہ کی طرف سے ملکہ سے درخواست کی کہ چین کے اندر افیون کی سمگلنگ بند کروائیں۔ مگر ملکہ وکٹوریہ نے غیر قانونی تجارت تو کیا بند کروانا تھی، اس نے خط کا جواب تک نہیں دیا۔ بلکہ جو افیون برطانوی تاجروں کو 2 سال میں ایک کروڑ 40لاکھ ڈالرز دے رہی تھی وہ ملکہ وکٹوریہ کے شروع کے دور میں ہی ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالرز سالانہ تک پہنچ گئی۔ چین کے لیے اب ایکشن کا وقت تھا۔(جاری ہے،حصہ سوئم)




