افغانستان میں شدید غذائی قلت،1.7 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکارہیں،اقوام متحدہ

نیویارک(جانوڈاٹ پی کے)افغانستان کی طالبان حکومت میں غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ گئی جس میں ایک کروڑ 70 لاکھ افراد شدید بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بین الاقوامی امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اور مؤثر امداد فراہم نہ کی گئی تو افغانستان میں غذائی قلت اور انسانی بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر عالمی تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ افغان عوام خصوصاً بچوں کے لیے خوراک، طبی امداد اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ایک بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد 40 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اس وقت ایک کروڑ 70 لاکھ افراد شدید بھوک اور افلاس کے عالم میں سردیاں جھیلنے پر مجبور ہیں کہ نہ سرد کپڑے ہیں اور نہ رہنے کو ڈھنگ کا ٹھکانہ ہے۔
اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی رپورٹس میں بھی افغانستان میں بگڑتی صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
یونیسف نے بتایا کہ غذائی قلت کا شکار بچے نہ صرف کمزور جسمانی حالت کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ بیماریوں کے خلاف ان کی قوت مدافعت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے جس کے باعث بچوں کی اموات کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق ملک میں جاری معاشی بحران نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ محدود روزگار کے مواقع، کمزور معیشت اور عالمی پابندیوں کے باعث لاکھوں خاندان اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد معاشی سرگرمیوں میں کمی اور بین الاقوامی امداد میں رکاوٹ نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
افغان میڈیا آمو ٹی وی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شدید سرد موسم میں بچے غیر موزوں اور ناکافی کپڑوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
بہت سے خاندان ایندھن خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے باعث سردی سے بچاؤ بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وسیع پیمانے پر غربت نے شہریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔۔



