کہاں لکھا ہے کمیٹیاں قبضہ دلوائیں گی؟،انارکی پھیلا رہے ہیں،نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
18درخواستیں اعتراض دور کرنے کےبعد فل بینچ کیلئے ریفر

لاہور(جانوڈاٹ پی کے/کورٹ رپورٹر )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کیخلاف دائر مزید 18 درخواستیں اعتراضات دور ہونے کے بعد فل بینچ کے روبرو سماعت کیلئے مقرر کرنیکی ہدایت کردی ،عدالت نے کمیٹیوں کی کارروائیوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے حکمِ امتناعی جاری کر دیا۔
آپ انارکی پھیلا رہے ہیں آپ کو نتائج کیلئےتیار رہنا چاہئے،عدلیہ کے احکامات ہوا میں اُڑادیئے گئے ،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
عدالت نے دوران سماعت سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود کمیٹیاں کیسے کاروائی کررہی ہیں؟آپ انارکی پھیلا رہے ہیں آپ کو نتائج کیلئےتیار رہنا چاہئے،آرڈنینس میں کہاں لکھا ہے کہ ڈی سی ٹربیونل کے اختیار استعمال کرے گا ؟ پنجاب حکومت کا وکیل عدالت میں کوئی جواب نہ دے سکا ، عدالت نے کہا آپ کے پاس میرے کسی سوال کا جواب نہیں ،آپکا قانون تھا کہ سول کورٹ میں کیس ہو گا تو ڈی سیز عدالت میں درخواست دے گا،سول کورٹ میں درخواست دینا تو دور ہائیکورٹ کے احکامات کو بھی اڑا دیا گیا، یہ لیگل ایشوز ہیں ایسے آپ کام کرینگے تو سوسائٹی میںں انارکی پھیلے گی،قانون شہادت کو آپ نے ختم کردیا ہے جس کو آئین پاکستان تحفظ دیتا ہے،وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ پراپرٹی پر قبضہ لیا گیا مگر ڈپٹی کمشنر تحریری احکامات نہیں دے رہا ،سرکاری وکیل نے کہا کہ رولز ابھی آنے ہیں ،عدالت نے کہا رولز کب آنے ہیں؟ کاروائیاں کی جارہی ہیں،بغیر رولز بنے کیسے کارروائیاں ہوسکتی ہیں؟ آپ یہ بتائیے کہ جب ڈی سیز آرڈر نہیں دے گا تو متاثرہ فریق آرڈر چیلنج کیسے کرے گا ،متاثرہ فریق نے بغیر آرڈر کے درخواستیں دی تو آفس نے اعتراض لگا دیا،اب آپ یہ بتائیں کہ متاثرہ فریق کہاں جائیں، یہ آپکے سامنے متاثرہ شخص کھڑا ہے آپ بتائیں ان کے پاس کیا آپشن ہے ؟قانون مکمل ہوتا ہے نا مکمل کچھ نہیں ہوتا،عدالت میں کیس آنے کے بعد آپ نے ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن کیا ہے ، وکیل درخواست گزار نے بتایا ڈی سی شیخوپورہ نے زبانی طور پر قبضے کا آرڈر دیا،عدالت نے ریمارکس دیئے تمام درخواستوں میں سنگین نوعیت کے الزامات ہیں ،ہم اس لیے ہر کیس دیکھ رہے ہیں کہ آپکو پتہ چلے کہ ہو کیا رہا ہے ،آپکو پتہ چلے کہ قانون کیا تھا اور کام کیا ہو رہا تھا ،آپ کے علم میں آئے کیسے اختیار سے تجاوز کیا جا رہا ہے ،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر سماعت تھا اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر نے قبضہ کروایا ،عدالت نے کہا ایکٹ میں ہے کہ اگر معاملہ سول کورٹ میں زیر التوا ہوگا تو ڈی سی متعلقہ کورٹ میں درخواست دے گا ،سول کورٹ پابند ہوگی کہ کیس کو ٹریبونل کو بھجوایا جائے ، سرکاری وکیل صاحب بتائیے کیا اس نقطے پر عمل ہورہا ہے؟ یہ جو شور مچایا ہے سارے جہاں میں کام تو پھر کام ہوتا ہے ،آپ کے قانون میں تو کچھ بھی نہیں لکھا ،یہ بتائیے کہ کہاں لکھا ہے کمیٹیاں قبضہ دلوائیں گی؟ قانون میں ہے کہ ٹریبونل کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد قبضہ ہوگا ،پیرا کیسے قبضے دلوا رہا ہے؟کمیٹی پیرا کو کہتی ہے ، پیرا قبضہ دلوا دیتی ہے ،بغیر کسی آرڈر کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہے ہیں؟ کیا اگر یہ عدالت بغیر آرڈر کے آپکو کچھ کہے تو کیا آپ مان لیں گے؟آپ تو کہیں گے کہ پہلے آرڈر دکھائیں پھر آگے بات کریں ،سرکاری وکیل صاحب بتائیے کہ کیا زبانی احکامات ٹریبونل نے جاری کیے؟ کیا ٹریبونلز نے کام شروع کردیا ہے؟ ابھی تک آپکے ٹریبونلز نے کام نہیں شروع کیا ،نہ عملہ ہے نا یہ پتہ ہے کہ ٹربیونل کہاں بیٹھیں گے ؟کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں؟ کیا قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا ہے ،تمام چیزیں بتانا پڑتی ہیں کہ کوئی درخواست آئے تو کس طرح کارروائی ہوگی ؟۔



