عثمان ہادی کون تھے اور ان کے قتل پر بنگلادیش کیوں جل اٹھا؟

ڈھاکہ(جانوڈاٹ پی کے)بنگلادیش میں جمہوریت کی بقا اور آمریت کے پُرفتن دور کے خاتمے کے لیے ابھرنے والی طلبا تحریک نے ایسے ہیرے قوم کو دیئے جنھوں نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی تھی۔

انھی نمایاں طلبا رہنماؤں میں سے ایک نوجوان سیاست دان شریف عثمان ہادی تھے جنھیں 12 دسمبر کو ایک انتخابی مہم کے دوران موٹر سائیکل سواروں نے نشانہ بنایا۔

انھیں پہلے ڈھاکا اور پھر سنگاپور لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج، ہنگامے اور بھارت مخالف جذبات پھوٹ پڑے۔

عثمان ہادی کے قتل کو محض ایک قتل نہیں بلکہ جمہوری آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں دارالحکومت ڈھاکا سمیت کئی شہروں میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔

شریف عثمان ہادی کون تھے؟

32 سالہ شریف عثمان ہادی بنگلادیش میں 2024 کی طلبا تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ انقلاب منچہ (Platform for Revolution) کے ترجمان تھے، جو سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا ایک اہم پلیٹ فارم تھا۔

ہادی آئندہ متوقع انتخابات (فروری 2026) میں ڈھاکا کے بجیوئے نگر (Dhaka-8) حلقے سے رکنِ پارلیمنٹ کے طور پر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔

وہ بھارت کے کردار پر بھی کھل کر تنقید کرتے تھے خاص طور پر اس تناظر میں کہ شیخ حسینہ واجد طلبا تحریک کے بعد بھارت فرار ہو گئی تھیں۔

ہادی کی موت کیسے ہوئی؟

12 دسمبر کو ڈھاکا میں انتخابی سرگرمی کے دوران ہادی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ بیٹری سے چلنے والے آٹو رکشے میں سفر کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے قریب آ کر ان کے سر پر گولیاں مار دیں۔

انہیں فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کے دماغی تنوں (Brain Stem) کو شدید نقصان پہنچنے کی تصدیق ہوئی۔

15 دسمبر کو بہتر علاج کے لیے انہیں سنگاپور جنرل اسپتال کے نیورو سرجیکل آئی سی یو منتقل کیا گیا، تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود وہ 19 دسمبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

حکومتی ردِعمل اور تفتیش

بنگلادیشی پولیس نے حملے کے فوری بعد ملزمان کی تلاش شروع کی، جبکہ ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) کو بھی اس کارروائی میں شامل کیا گیا۔

پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کرتے ہوئے دو مرکزی مشتبہ افراد کی تصاویر شائع کیں اور ان کی گرفتاری پر 50 لاکھ ٹکہ انعام کا اعلان کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک کم از کم 20 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے تاہم مرکزی ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے۔

عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے عثمان ہادی کی موت کو “قوم کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان” قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوف اور خونریزی کے ذریعے بنگلادیش کے جمہوری سفر کو روکا نہیں جا سکتا۔

حکومت نے جمعہ کے بعد مساجد میں خصوصی دعاؤں اور ہفتے کے روز قومی سوگ کا اعلان بھی کیا۔

احتجاج، تشدد اور میڈیا دفاتر پر حملے

عثمان ہادی کی موت کی خبر پھیلتے ہی ڈھاکا اور دیگر شہروں میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔

مظاہرین نے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کے سربراہان کے استعفے کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ ریاست ہادی کو تحفظ دینے میں ناکام رہی۔

احتجاج کرنے والے کئی گروہوں نے ان اخبارات کے دفاتر پر حملے کیے جنہیں وہ بھارت نواز سمجھتے ہیں۔

ڈھاکا میں معروف اخبارات پرتھوم آلو اور ڈیلی اسٹار کے دفاتر میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے واقعات پیش آئے، جن میں درجنوں صحافی کئی گھنٹے عمارتوں میں محصور رہے۔

اسی طرح بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمیشن (چٹاگانگ) پر بھی پتھراؤ کی اطلاعات سامنے آئیں۔

بھارت مخالف جذبات کیوں؟

مظاہرین اور نوجوان سیاسی رہنما الزام عائد کر رہے ہیں کہ حملہ آور بھارت فرار ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بیانیہ زور پکڑ چکا ہے کہ بھارت بنگلادیش کی داخلی سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے اور شیخ حسینہ واجد کو گزشتہ برسوں میں مکمل حمایت فراہم کرتا رہا۔

نیشنل سٹیزن پارٹی کے ایک رہنما نے یہاں تک کہا کہ جب تک ہادی کے قاتل بھارت سے واپس نہیں کیے جاتے، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔

مظاہرین شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، جنہیں گزشتہ ماہ بنگلادیشی ٹربیونل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں سزا سنائی تھی، مگر بھارت نے تاحال انہیں واپس بھیجنے سے انکار کر رکھا ہے۔

پس منظر: 2024 کی طلبا تحریک

گزشتہ برس بنگلادیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا، جسے حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران تقریباً 1,400 افراد ہلاک اور 20,000 سے زائد زخمی ہوئے۔ بعد ازاں یہی تحریک شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی۔

مزید خبریں

Back to top button