سرگودھا امن کمیٹی کے ارکان کا بھارت میں مسلم خاتون کیساتھ ناروا سلوک کیخلاف احتجاج

سرگودھا (نامہ نگار)بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے مسلمان خاتون ڈاکٹر کے چہرے سے نقاب کھینچنے کے واقعے کے خلاف ممبران امن کمیٹی نے سرگودھا پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے واقعے کو قابلِ مذمت، شرمناک اور انسانی اقدار کے منافی قرار دیا۔شرکاء نے بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب اور مسلمانوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
زونل خطیب قاری وقار احمد عثمانی نے کہا کہ ایک منتخب وزیراعلیٰ کی جانب سے سرکاری تقریب میں ایک مسلمان خاتون کے مذہبی لباس کی بے حرمتی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں آئینی و انسانی اقدار کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نسرات پروین ایک تعلیم یافتہ اور باوقار خاتون ہیں جو اپنی محنت کے اعتراف میں اپائنٹمنٹ لیٹر لینے آئیں، مگر انہیں سرعام تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مولانا عمر فاروقی نے کہا کہ یہ واقعہ محض ایک فرد کا عمل نہیں بلکہ ایک منظم سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقاب یا حجاب کسی پر جبر نہیں بلکہ خواتین کا ذاتی اور مذہبی حق ہے، اور اس حق کو چیلنج کرنا مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔ قاری احمد علی ندیم ،امیر افضل اعوان اور ملک ضیاء الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے گھروں کی مسماری، مساجد کے خلاف کارروائیاں، مذہبی اجتماعات پر پابندیاں اور اب خواتین کے مذہبی لباس کی توہین، سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی بھارت کو مزید حوصلہ دے رہی ہے، جو خطرناک ہے۔ مقررین نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس واقعے پر تشویش کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاملہ محض اندرونی نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی ادارے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا نوٹس لیں۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر ممبران امن کمیٹی نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر نسرات پروین سے معذرت کی جائے، واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں، اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے واضح پالیسی اختیار کی جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر اس طرح کے اقدامات جاری رہے تو احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ہر فورم پر آواز بلند کی جائے گی۔



