عمران خان پر بیان کے بعد پی ٹی آئی ونگ کا حملہ،ڈی جی آئی ایس پی آر اور والد کیخلاف پروپیگنڈا شروع

لاہور(سپیشل رپورٹ:جانو ڈاٹ پی کے)ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف  کےپریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اشارتاً’’ذہنی مریض‘‘قرار دینے کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا واریئر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور ان کے والد  سلطان بشیرالدین محمود کے خلاف منفی پروپیگنڈاشروع کردیا ہے۔

فیس بک،ٹویٹر،ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور ان کے والد  سلطان بشیرالدین محمود کے خلاف ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔ لیکن ٹرینڈچلانے والے نابلد لوگ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور ان کے والد  سلطان بشیرالدین محمود کے شجرہ نسب اور پاکستان کیلئے خدمات سے بالکل بھی واقف نہیں ہیں۔

اس تحریر میں آپ کو بتاتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور ان کے والد  سلطان بشیرالدین محمود کون تھے اور ان کی پاکستان کیلئے کیا خدمات تھیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کے والد سلطان بشیر محمود جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں میں سے ہیں

پلوٹو نیم بم کے علاوہ ان کا ایک کارنامہ قران حکیم کی سائنسی تفسیر’’کتاب زندگی“ہے۔سلطان بشیر الدین محمود کی پوری زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی سائنس اور ٹیکنالوجی تو قرآن مجید میں پہلے سے موجود ہے۔اس کتاب میں وہ قرآن کی آیات کو جدید سائنس(خاص طور پر نیوکلیئر فزکس، کوانٹم مکینکس، توانائی، کائنات کی تخلیق وغیرہ)سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن میں ایٹم، نیوٹران، الیکٹران، بگ بینگ، ڈارک میٹر، جن، فرشتوں کی توانائی، بجلی، پلازما وغیرہ کا ذکر پہلے سے موجود ہے جدید سائنسدان قرآن کو دوبارہ پڑھیں تو انہیں اپنی تمام دریافتیں پہلے سے مل جائیں گی اور انسان کی اصل ترقی روحانی اور قرآنی علوم سے ہوگی، نہ کہ صرف مادی سائنس سے۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی جو دہریہ اور اکثر تنقید کرتے کہ اسلام دقیانوسی اور ماڈرن سائنس سے کٹا پرانا دین ہے.کچھ تخم الخبائث ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف چوہدری کے والد محترم،ڈاکٹر سلطان بشیر محمود پر بے بنیادتنقید کر رہے ہیں۔ایسے لوگ اپنے قد سے بڑے انسانوں کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔

ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد مضبوط بنانے میں وہ کردار ادا کیا جسے آج بھی سینئر سائنسدان’’پسِ پردہ ریڑھ کی ہڈی‘‘قرار دیتے ہیں

انہیں نہ صرف تحقیق، ڈیزائن اور نیوکلیئر ری ایکٹر ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اُن چند لوگوں میں شامل تھے جو ابتدائی ایٹمی تنصیبات سے لے کر فیول سائیکل تک ہر مرحلے کی تکنیکی باریکیوں کو سمجھتے تھے۔جب عالمی دباؤ اپنے عروج پر تھا اور مغربی حکومتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے ہر راستہ بند کر رہی تھیں، اُس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر سخت ترین پابندیاں لگا دی گئیں۔ پاکستان کے لیے یہ وہ دور تھا جب یو ای ٹی اور کہوٹہ کے سائنس دانوں کی نقل و حرکت تک محدود تھی،بیرونِ ملک سے حساس آلات اور میٹریل کی درآمد تقریباً ناممکن ہوگئی تھی،عالمی انٹیلیجنس نیٹ ورکس ہر پاکستانی سائنس دان کی نگرانی کر رہے تھےاور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ایک بند دروازے کے پیچھے دھکیلنے کی پوری کوشش کی جا رہی تھی۔ ایسے میں بہت سے پراجیکٹس تعطل کا شکار ہو سکتے تھے مگر ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا۔اسی مرحلے پر انہوں نے ان ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا جو عام حالات میں پوری ٹیمیں اٹھاتی ہیں۔لیکن عالمی دباؤ کے باعث وہ کام چند مخصوص لوگوں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔

Image

ڈاکٹر سلطان بشیر محمودنے نیوکلیئر فیول کے پیچیدہ حسابی مراحل،ری ایکٹر ڈیزائن کے حساس پہلو،حساس دستاویزات کی تکنیکی تدوین اور بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود متبادل راستے تلاش کرنےجیسے کام تن تنہا سرانجام دیتے رہے۔

یہ انہی کی محنت تھی کہ وہ مراحل مکمل ہوئے جن کے بغیر پاکستان کا ایٹمی پروگرام رکاوٹ کا شکار ہوتا اور مکمل طور پر سست پڑ جاتا۔اس جرأت،خود اعتمادی اور غیر معمولی صلاحیت کی سزا انہیں یہ ملی کہ امریکہ نے ان پر باضابطہ پابندیاں عائد کر دیں۔

پابندیوں کا مطلب یہ تھا کہ ان کا نام عالمی واچ لسٹ میں شامل کیا گیا، بیرونِ ملک سفر محدود کیا گیا،مالیاتی و تکنیکی پابندیاں لگائی گئیں اور پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ انہیں حساس شعبوں سے دور رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ آج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری دشمن بیانیوں کے خلاف سب سے مضبوط دیوار بنے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر سلطان بشیر نے افغانستان کی تعمیرِ نو میں بھی نمایاں کردار ادا کیامگر کبھی اپنے اس بڑے کام کی نمایش نہیں کی۔

سائنس اور قرآن کے امتزاج پر ان کی تحقیق اپنی مثال آپ ہے۔قرآن کی سائنسی تفسیر سورہ آل عمران تک شائع ہو چکی ہے جبکہ اس موضوع پر درجنوں کتابیں تحقیق کا حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔۔جو لوگ اس عظیم محسنِ وطن کے خلاف زبان چلاتے ہیں، وہ دراصل اپنی ہی کم ظرفی کا اعلان کرتے ہیں۔

Image

Image

مزید خبریں

Back to top button