چین اپنا یار ہے
تیسری قسط

بیجنگ(تحریر:نوشیروان وڑائچ)چینی عوام کی خودداری کے پیچھے ایک اہم وجہ یہاں لوگوں کو میسر زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتوں کی آسان دستیابی ہے،مطلب یہاں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں ائیر کنڈیشن کی سہولت نہ ہو۔ روزگار کے وافر اور آسان مواقع ہر کسی کیلئے دستیاب ہیں،لوڈشیڈنگ کا تو سرے سے کوئی تصور ہی نہیں اور بجلی اتنی سستی کہ دبا کر اے سی چلائیں،بجلی والا چولہا استعمال کریں تو پھر بھی مہینہ بھر کا بل صرف دو سو آر ایم بی کے قریب ہی آئے گا،پبلک ٹرانسپورٹ ایسی کہ آپ کو اپنی ذاتی گاڑی کی ضرورت محسوس نہ ہو،بڑے شہروں کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں پبلک ٹراسپورٹ(کہیں میٹرو تو کہیں بس)نہ ہو،غرض یہاں آپ کو اپنی ذاتی سواری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اگرچہ یہاں بیشتر چینی باشندوں کے پاس اپنی گاڑی اور اپنی الیکٹرک سکوٹی بھی موجود ہے مگر بیشتر لوگ یہاں روز مرہ سفر کیلئے میٹرو کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:چین اپنا یار ہے( پہلی قسط)
چین میں رہائش کا ایک سالہ پرمٹ ملنے تک ہمیں یہاں پہنچے تقریباً ایک ماہ ہو چکا تھامگر ابھی بھی سب کچھ اجنبی اجنبی تھا،شینزن شہر میں موبائل فون کے سامان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہاچن بے کےنام سے ہے۔
اکتوبر2023کے آخری دنوں میں میں نے پہلی بار یہاں جانے کی ہمت کی اور بغیر کسی دکاندار سے بات کیے ہی واپس آگیا،کیونکہ یہاں بیشتر دکانیں خواتین،جن کو لڑکیا ں کہنا زیادہ بہتر ہوگا وہ چلاتیں ہیں اور لڑکیاں بھی ایسی جو کسی خوبصورت گڑیا سے کم کیا ہوں گی۔اپنے گھر واپسی پر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہر روز تمہیں میرے ساتھ مارکیٹ جانا پڑے گا، کیونکہ مجھے لگتا ہےکہ کہیں میں کسی خوبصورت دکاندار (لڑکی)سے بات کروں اور وہ مجھ پر ہراسمنٹ کا کیس ہی نہ بنادے ۔میرے اس خوف کے پیچھے وجہ پاکستان کا گھٹن زدہ ماحول تھا۔
پاک چین دوستی، شہد سے میٹھی،پہاڑ سے اونچی اور سمندر سے گہری” کا نعرہ کاروبا ر میں نہیں صرف سفارتی سطح پر ہے
دلچسپ طور پر چین میں خواتین ہر شعبہ زندگی میں برابر کی حصہ دارہیں،یہاں خواتین بیشتر کاروبار فرنٹ فٹ پر چلا رہی ہیں،حتیٰ کہ ٹرینیں،بسیں اور ٹرک بھی چلا رہی ہیں،یہاں زیادہ تر کاروبار پورا خاندان مل کر چلاتا ہے،جیسا کہ اگرایک بھائی کی فیکٹری میں سینیٹری کا سامان تیار ہوتا ہے تو دوسرا بھائی،ٹائلیں بنانے کا کام کر رہا ہے،ان کی کوئی بہن یا رشتہ دارپیکنگ کے ڈبے بنا رہا ہے اور دوسرا رشتہ دار اُس سے بھی قریبی تعلق ہے جیسا کہ پھوپھی یا ماموں وہ انہیں میں سے کسی چیز میں استعمال ہونے والا خام مال تیار کر رہا ہے۔یہاں سب ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔یہاں مارکیٹ میں دکانداروں سے کچھ ڈیلنگ کر کے ایک چیز کا شدت سے احساس ہوا کہ ـ”پاک چین دوستی، شہد سے میٹھی،پہاڑ سے اونچی اور سمندر سے گہری” کا نعرہ کاروبا ر میں نہیں صرف سفارتی سطح پر ہے،کاروباری افراد اب یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان میں غربت کی وجہ سے وہاں کے تاجر بھی خریداری سے پہلے بہت بھاؤ تاؤ کرتے ہیں،اسی لیئے چینی کاروباری افراد کا خیال ہے کہ جتنا وقت ہم نے کسی پاکستانی تاجر سے بھاؤتاؤکرنے میں برباد کرنا ہے اتنے وقت میں ہم امریکہ، یورپ یا عرب ممالک کے تاجروں سےتین،چار سودے مکمل کر لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:چین اپنا یار ہے (قسط 2)
یہاں آکر احساس ہوا کہ پاکستان میں چینی اشیاء کے ناقص ہونے کے تاثر کی وجہ بھی کرنسی ایکسچینج ریٹ میں بڑے فرق، پاکستان عوام کی کم قوت خرید،بےروزگاری،غربت اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہے۔پاکستانی تاجر چین سے ہلکی کوالٹی کا سامان کم قیمت پر خریدنا چاہتے ہیں جبکہ یہی چین بہترین کوالٹی کی اشیاءامریکہ،یورپ، عرب ممالک اور کچھ افریقی ممالک کو بیچتا ہےصرف قیمت کا تھوڑا فرق ہے۔
ایک اور چیز جو مجھے آج تک ہضم نہیں ہوپائی وہ یہ ہے کہ آپ یہاں کی کسی بھی ہول سیل مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو یہاں سامان اتنی بڑی تعداد میں ملے گا کہہ لیں جیسے موبائل فون کے کور یا پروٹیکٹر گلاس،اگر مبالغہ آرائی سے کام نہ بھی لوں تو صرف شینز ن شہر کی ہاؤچن بے مارکیٹ میں یہ لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں ہوں گےاور ان کی قیمت بھی ایک آر ایم بی سے شروع ہوکر 50آر ایم بی تک ہے۔پاکستانی تاجر ایک آر ایم بی والا خریدتے ہیں جبکہ یورپ امریکہ والے 30آر ایم بی سے زیادہ قیمت والے کو ترجیح دیتے ہیں۔
(جاری ہے)



