حکومت کیلئے سر درد

امداد سومرو
ستائیسویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد نافذ العمل بھی ہو گئی، عدالتی ڈھانچہ بھی تبدیل ہو گیا مگر بعد از ترمیم حالات چھبیس ویں آئینی ترمیم سے یکسر مختلف ہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کے باوجود اس کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر رد عمل نہیں آیا تھا جو ستائیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دیکھا جا سکتا ہے ۔
سمجھا یہ جا رہا تھا کہ جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کے مخالف رو پیٹ کر خاموش ہو گئے اسی طرح ستائیسویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد چند دن رونا پیٹنا لگا رہے گا پھر خاموشی ہو جائے گی مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کو بھی عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت پر حملہ قرار دیا گیا اور ستائیسویں ترمیم کے مخالف سیاسی قوتوں، وکلا اور جج صاحبان کی یہی رائے ہے مگر حالات پہلے سے مختلف کیوں ہیں۔
کراچی، حیدرآباد، سکھر میں چند دنوں سے وکلا اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ لاہور اور پشاور میں بھی وکلا نے مظاہرے کئے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی کال پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ایم این ایز اور سینیٹر نے پارلیمنٹ ہائوس سے سپریم کورٹ تک شاہراہ دستور پر مارچ کیا۔
حیدرآباد میں رسول بخش پلیجو کی جماعت عوامی تحریک کی ویمن ونگ سندھیانی تحریک نے بڑی احتجاجی ریلی نکالی جس پر خواتین سمیت پانچ سو رہنمائوں اور کارکنوں پر مقدمہ درج کیا گیا ۔
ترمیم کی منظوری اور آئینی عدالت کے قیام کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے سنیئر پونے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہرمن اللہ نے استعفیٰ دیا ۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مسعتفی ہو گئے ۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے دوران بھی یہ چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ اگر آئینی بینچ بنا تو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہرمن اللہ اور ان کے ہم خیال سات آٹھ جج سپریم کورٹ سے اور ہائی کورٹس سے بھی بڑی تعداد میں جج صاحبان اجتماعی استعفے دے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا ، اب کیوں ہوا یہ سب سے بڑا سوال ہے؟۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان جج صاحبان نے تب اپنی پنشن اور تاحیات مراعات پکی کرنے کیلئے استعفے نہیں دیئے۔ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس وقت تک ان کو امید تھی کہ شاید حالات آگے جاکر ان کے حق میں ہو جائیں گے، یعنی اپنا ٹائم آئے گا والی سوچ نے انہیں روک رکھا تھا ، اب جب انہیں نظر آ گیا کہ ان کا عدلیہ میں ٹائم پورا چکا تو وہ مستعفی ہو گئے۔ مگر ایک خیال اور بھی ہے کہ یہ جج صاحبان کسی کے اشارے پر عدلیہ سے باہر آئے ہیں کیوں کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں صرف جج صاحبان ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ کہیں اور بھی اس کے اثرات پڑے ہیں اس لئے تحریک کا ماحول بنانے کیلئے استعفے دیئے گئے ہیں اور وکلا بھی پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ تحریک میں دلچسپی نہیں رکھتے البتہ ماضی میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی تحریک میں ان کے ترجمان جسٹس اطہرمن اللہ کسی بھی مرحلے پر وکلا کی اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں جو چلانے کیلئے دو تین برس سے عمران خان بھی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں مگر مسلسل ناکام رہے ۔
میری ذاتی رائے میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے مقابلے میں ستائیسویں آئینی ترمیم اس لئے زیادہ متنازعہ ہوئی۔ کہ اس پر وسیع پیمانے پر مشاورت نہیں کی گئی۔ حکمران اتحاد نے آپس میں بیٹھ کر عدلیہ، افواج کی کمان، صدر مملکت کے استثنیٰ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو دو ہزار تیس تک چیف آف ڈیفینس فورسز تعنیات کرنے جیسی اہم ترین ترامیم پر کسی اور سیاسی قوت ، وکلا یا دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے مشاورت نہیں کی ۔ جبکہ چھبیسویں آئینی ترمیم کیلئے تحریک انصاف آخری مرحلے تک مشاورت میں شامل رہی، ان کی تجاویز تک ترامیم کا حصہ بنییں، آئینی عدالت کی جگہ آئینی بنچ پر اتفاق بھی تحریک انصاف کو راضی کرنے کیلئے کیا گیا۔ اس لئے چھبیسویں ترمیم پر اختلافات، تحفظات کے باوجود کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا البتہ اب حالات پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے جیسے اس بار کوئی تحریک کھڑی ہو سکتی ہے ۔ مگر یہ تحریک کچھ عرصے تک حکومت کیلئے سر درد کے علاوہ شاید کوئی بڑا چیلینج نہ بن پائے، اگر حکومت نے سیاسی طریقے سے تحریک کا مقابلہ نہ کیا تو پھر سر درد بڑے چیلینج میں تبدیل ہو سکتا ہے اور وہ بھی صرف حکومت کیلئے نہیں ۔۔۔



