چین اپنا یار ہے( پہلی قسط)

نوشیروان وڑائچ

پاکستان سے قطر ائیرویز کی براسطہ دوحہ تقریبٓا 22 گھنٹے طویل پرواز کے بعد چین کے معروف کاروباری مرکز گوانگزو میں لینڈنگ، ایسی زبان جس کی الف، ب بھی معلوم نہ تھی، ایک انجان ملک میں ائیرپورٹ پر موجود عملہ ، بظاہر کوئی بھی تعاون کرنے کو تیار نہیں، اگرچہ یہ تاثر محض چند روز بعد ہی یکسر تبدیل ہوگیا کیونکہ ہر چینی شہری اتنا تعاون کرتا ہے جتنا آپ سوچ بھی نہیں سکتے، ائیرپورٹ پر طویل کاغذی کارروائی جو کاغذ پر نہیں جدید ترین کمپیوٹر مشینوں پر تھی کے بعد اگلا مرحلہ تھا اپنی اصل منزل شینزن تک کے سفر کیلئے ٹیکسی کا بندوبست کرنا، چینی زبان سے ناواقفیت نے ہر مرحلہ مشکل سے مشکل ترین بنا رکھا تھا۔ گوانگزو سے شینزن تک ٹیکسی کا کرایہ عام طور پر 400 آر بی ایم ( چینی کرنسی) ہے مگر مجھے پہلے سفر میں دوگنا رقم دینی پڑی۔ پہلے سفر میں مجھے آٹھ سو آر ایم بی کیوں دینے پڑے یہ تفصیلات یقننآ آگے جا کر گفتگو کا حصہ بنے گی، سو ابھی تھوڑا انتظار۔۔

ائیر پورٹ سے نکلتے ہی کشادہ سڑکیں، بھاری بھرکم ٹرکوں سے لدی تھیں، گاڑیاں کم، ٹرک ٹریلر زیادہ تھے،ٹیکسی ڈرائیور انگریزی یا کوئی اور زبان بولنا نہیں جانتا تھا اور بدقسمتی کہیے کہ ہمارے پاس ٹرانسلیٹر قسم کی کوئی ڈیوائس یا ایپ بھی موجود نہ تھی، پُر اسرار خاموشی کی وجہ سے یہ سفر تھکان میں مزید اضافہ کر رہا تھا، ہاں مگر ایک ایسا معاملہ جس کا بعد میں بھی ہر روز سامنا رہا وہ ہے چینی لوگوں کی بے دریغ آپ کو سگریٹ پیش کرنے کی عادت، کوئی ڈھائی گھنٹے کے اس سفر کے دوران میرے چینی ڈرائیور بھائی نے کم و بیش 5مرتبہ خود سگریٹ سلگائی اور ہر مرتبہ مجھے بھی کھلے دل سے پیشکش کی ، زبان سے عدم واقفیت کے باعث خاموش ڈرائیور کی اس کشادہ دلی نے اس انجان خوف میں کچھ کمی ضرور کی۔

شینزن میں ایک مہربان ڈاکٹر شعیب نثار کے توسط سے رابطہ کار بننے والے ایک پاکستانی محمد منیر ہم سے رابطے میں تھے اور سفر کو آسان بنانے کی غرض سے انہوں نے موبائل فون پر ہمیں ہماری منزل کی لوکیشن بھیج رکھی تھی، مگر جیسا کہ آپ میں سے بیشتر احباب جانتے ہوں گےکہ چین میں انٹرنیٹ پر سخت کنڑول ہونے کے باعث یہاں گوگل، گوگل میپس، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام غرض یہ کہ وی چیٹ یا دیگر چینی ایپس کے علاوہ کچھ بھی اور نہیں چلتا ۔

چین کی مقامی ایپس اور دیگر وی چیٹ کے علاوہ کوئی اور موبائل ایپ استعمال کرنےکیلئے وی پی ایین درکار تھی جو بدقمستی سے ہمارے پاس نہیں تھی ۔

‎جس کے باعث ہمیں لوکیشن فالو کرنے میں شدید مشکل کا سامنا تھا ، یہی وجہ تھی کہ ہمیں چار سو آر بی ایم والا سفر ہمیں آٹھ سو آر بی ایم میں پڑا ۔ یہاں چین میں اسی فیصد سے زائد گاڑیاں الیکٹرک ہیں، یہاں تک کہ بڑی بسیں، ٹریلر بھی بجلی پر چلتی ہیں ۔

اسی لیے گوانگزو سے نکلنے کے بعد شینزن سے پہلے ایک چھوٹے شہر ڈانگوان میں ڈرائیور بھائی نے چارجنگ کی غرض سے گاڑی کچھ دیر روک لی ، اور اس دوران اس انجان خوف میں پھر اضافہ ہوگیا، اللہ اللہ کرکے آدھے گھنٹے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا ۔

اور کچھ ہی دیر میں ہم شینزن پہنچ گئے ، مگر وی پی این اورٹرانسلیشن ایپ نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک غلط لوکیشن پر پہنچ گئے اور ہم سے رابطے میں رہنے والے محمد منیر سے رابطہ کیا تو معلوم پڑا کہ اصل منزل ابھی دس کلومیٹر آگے ہے، پھر وہی مشکل ، جیسے تیسے اشاروں سے ڈرائیور بھائی کو سمجھایا اور پھر کچھ ہی دیر میں ہم اپنی اصل منزل پر پہنچ گئے اور یہاں پہنچتے ہی ڈرائیور نے پہلے سے طے شدہ پانچ سو آر ایم بی کی جگہ آٹھ سو آر ایم بی کا مطالبہ کر دیا، سفر کی تھکان، انجان ملک میں انجان لوگ اور پھر زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے جلدی جلدی ڈرائیور کو آٹھ سو آر ایم بی دیئے اور جان چھڑوانے کی کوشش کی، اگرچہ محمد منیر اور ان کے ساتھ موجود کچھ پاکستانی بھائیوں کا ارادہ تھا کہ پھڈا ڈالیں اور ڈرائیو کوپانچ سو آر ایم بی ہی ادا کریں، مگر مجھ میں مزید ہمت نہیں تھی، چونکہ اس سفر میں میں، میری بیوی جو دراصل پی ایچ ڈی کرنے چین آرہی تھی اور اسی کی وجہ سے میں اور ہماری چھ سال کی بیٹی اس سفر میں تھے۔ ہم فوری اپنے لیے بک کیے گئے کمرے میں پہنچے تو کچھ تسلی ہوئی، اب اگلا مرحلہ تھا پہلی ہی فرصت میں کسی وی پی این اور ٹرانسلیشن والی ایپ کا بندوبست کرنا، سو محمد منیر کی وساطت سے ہی ایک اور پاکستانی نوجوان فرخ سے ملاقات ہوئی جس نے کچھ ہی منٹوں میں دونوں ایپس کا بندوبست کردیا۔(جاری ہے)

مزید خبریں

Back to top button