یہ پی آئی اے،Pkہے کیا؟

باکمال لوگ لاجواب سروس ۔پی آئی اے کا سلوگن اُلٹ پلٹ ہوگیا

باکمال لوگ لاجواب سروس ۔پی آئی اے کا سلوگن اُلٹ پلٹ ہوگیا،ناباکمال لوگ رہے نہ ہی لاجواب سروس رہی، پی آئی کے "ڈرائیورز ” بھی "پرانی بسوں”کے ڈرائیورز سے کم نہیں،پرانی بسوں کے ڈرائیورز کے بارے میں مشہور ہے وہ ٹوٹی سڑک دیکھتے ہیں اور نہ ہی موسم،بس اُن کو تو اپنے ٹائم پر پہنچنا ہوتا ہے ،چاہے گاڑی اُلٹ جائے یا کسی راہگیر کو روندنا پڑ ے ،وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں،پی آئی اے کے "ڈرائیورز”کا بھی یہی حال ہے۔
Pk604میں سب کی ”ہوائیاں”اُڑ گئیں
یہ قصہ اسلام آباد سے گلگت اور گلگت سے واپس اسلام آباد کے ہوائی سفر بذریعہ پی آئی کا ہے،29ستمبر کو گلگت سے اسلام آباد کیلئے پی کے 604 کو اُڑان بھرنا تھی،مسافر اپنی منزل پر روانگی کیلئے بروقت ایئر پورٹ پہنچ گئے،معلوم پڑا کہ فلائٹ موسم کی خرابی کیوجہ سے ایک بجکر 15منٹ کے بجائےکچھ تاخیر سے اُڑان بھرے گی،مسافروں کو ”لارے لپے”لگانے کے بعد تقریباً4بجکر30منٹ کا وقت ہوگیا،عمومی طور پر 4بجکر30منٹ کے بعد گلگت سے کوئی بھی پروازاُڑان نہیں بھرتی کیونکہ گلگت کا موسم کافی ”بے ایمان”ہے،جیسے ہی ساڑھے 4بجے تو مسافروں نے ہمت ہاردی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اب یہ ٹائم اوپر ہوگیا ہےلہٰذہ فلائٹ نہیں اُڑے گی لیکن5بجکر15منٹ پراُڑان بھرنے کا اعلان ہوگیا اور موسم کی شدید خرابی کے باوجود”ڈرائیور "صاحب  نے فیصلہ کرلیا بس بھئی بس ہم اُڑان بھریں گے ۔مسافروں میں خوشی کیساتھ تشویش کی لہر بھی دوڑ گئی کیونکہ سب جانتے تھے خراب موسم میں طیارے اُڑان نہیں بھرتے لیکن سب اپنی منزل پرپہنچنے کیلئے پرجوش تھے سو تشویش خواہش پر غالب آگئی اور پی آئی کی پرواز نے اُڑان بھر لی۔طیارے نے جیسے ہی ٹیک آف کیا کچھ دیر کے بعد موسم اور بھی زیادہ خراب ہوگیا اور ہوا میں سب کی ہوائیاں اُڑ گئیں،طیارہ ہچکولے کھانے لگا،مسافر چیخنے چلانے لگے،طیارے میں سے پرانی بسوں کی طرح چھک چھک کی آوازیں سنائی دینے لگیں،کچھ مسافروں نے تو آخری بار کلمہ بھی پڑھ لیا،کچھ غیر ملکی سیاح جو طیارے میں سوار تھے ایکدوسرے کو گلے ملنے لگ گئےوہ یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ ان کا آخری سفر ہے،غیر ملکی سیاح جوڑے کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بس پروین شاکر کے شعر”مرنے سے پہلے مر گئے ہیں۔جینے سے کچھ ایسا ڈر گئے ہم” کو سہی سمجھ بیٹھے،اگر پروین شاکر زندہ ہوتیں اور اس طیارے پر سوار ہوتیں تو یقیناً یہ کہتیں ۔مرنے سے پہلے مرگئے ہیں،پی آئی اے کے طیارے پر چڑھ گئے ہم۔
پروین شاکرطیارے پر سوار ہوتیں تو یقیناً یہ کہتیں
مرنے سے پہلے مرگئے ہیں۔پی آئی اے کے طیارے پر چڑھ گئے ہم
خیر یہ تو آپ کی طفنن طبع کیلئے تھا۔ہچکولے کھاتے گرتے پڑتے طیارے میں چیخ و پکار کا عالم مرنے سے پہلے مرگئے والا ماحول ملکی و غیر ملکی مسافروں کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔رہی سہی کسر اس وقت نکل گئی جب اٹھارہ ہزارفٹ سے بھی زیادہ کی بلندی سے طیارہ اچانک انتہائی نیچے کی طرف تیزی سے یکا یک آگیا۔اُف میرے خدایا وہ بھی کیا خوفناک احساس تھا ان مسافروں کیلئے جو اس میں سوار تھے۔بہر کیف کچھ نے کلمہ پڑھ لیا اور کچھ نے آخری "جھپی”لگالی۔
گرتے پڑتے طیارہ کچھ دیر کے بعد سنبھل گیا لیکن مسافروں کاپورا پورا”تراہ”نکل چکا تھا۔بس کُچھ نہ پوچھیئے۔الحفیظ الامان۔
طیارے کے تھوڑا بہت سنبھلتے ہی ڈرائیورنما پائلٹ نے اعلان کردیا موسم خراب ہے۔بس اس اعلان کی دیر تھی کہ مسافروں کی پھر چیخیں نکل گئیں،قصہ مختصر طیارہ اپنی منزل اسلام آباد پہنچ گیا،مسافروں کے سانس بحال ہوئے تو معلوم پڑا کہ "ڈرائیور” صاحب کو اپنا ہی کچھ کام یاد آگیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ خراب موسم میں بھی انہیں مسافروں کی جان جوکھم میں ڈال کر اسلام آباد پہنچ جانا چاہئے۔خبریہ ہے کہ کنٹرول روم نے پائلٹ کو موسم سے آگاہ کردیا تھا لیکن "ڈرائیورنما پائلٹ”نے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے اُڑان بھرلی۔pkمیںPk کو کسی نے کیا ہی خوب کہاتھا ”پی کے ”ہے کیا؟۔
میرا بھی یہی سوال ہے پی آئی اے ”Pk ہے کیا۔
"پی کے” کے ہجوں کو لکھنؤ کی نستعلیق اُردو میں تشریحاً بیان کریں تو اس کا مطلب ہے ۔پی رکھی ہے کیا اور اگر پنجاب میں ترجمہ کریں تو کہیں گے” پیتی اُوہ”۔
بس اب آپ اپنی مرضی کے مطلب خود نکال لیجئے۔
Pkکافی امان اللہ.نوراللہ
YouTube player

مزید خبریں

Back to top button